Latest News

طالبان حکومت کے دوران بھوک-غریبی سے پریشان افغانستانی  اپنے بچے، انگ اور گھروں کا سامان تک بیچنے کو مجبور

طالبان حکومت کے دوران بھوک-غریبی سے پریشان افغانستانی  اپنے بچے، انگ اور گھروں کا سامان تک بیچنے کو مجبور

15اگست2021کو افغانستان کی جمہوری سرکار کے زوال کے بعد اقتدار میں آئی انترم طالبانی سرکارنے ملک کے سماجی اور معاشی تانے-بانے کو بھاری ٹھیس پہنچائی ہے اور طالبانی حکمرانوں کے خلاف ملک کے تمام طبقوں کے لوگوں میں غصہ بڑھ رہاہے۔
 اس کے نتیجے میں افغانستان کے لوگوں کاجینا مشکل ہوتاجارہاہے۔ ملک میں تقریباً50فیصد ادیوگ- دھندے بند ہوگئے ہیں اور فیکٹریوں میں ہونے والی پیداوار پوری طرح ٹھپ ہوجانے کی وجہ سے بڑی تعدادمیں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ اس سے لازمی جیون اپیوگی چیزوںکا سنکٹ پیدا ہوگیا ہے اور بھکمری وبیماری کی نوبت آگئی ہے۔
 عام لوگوں کو ہسپتالوں میںعلاج تک نہیں مل  پارہا،اتنا ہی نہیں، دکانوں میں عام بیماریوں کی دوائیاں تک نہیں ہیں۔ باہری ملکوں سے آیات ٹھپ ہونے کی وجہ سے کھانے-پینے کی چیزوں کی بھی کمی ہوگئی ہے۔
 غریبی اور بے روزگاری کی وجہ سے کابل میں اپنے گھروں کا سامان بیچنے والوں کی تعداد بھی کافی بڑھ گئی ہے۔ راجدھانی کابل میں ہی بڑی تعداد میں لوگ اتنے مجبور ہیں کہ روٹی خریدنے کیلئے کچھ بھی بیچنے کو تیار ہیں۔
 بڑی تعدادمیں لوگوں نے خود کو زندہ رکھنے کیلئے اپنے انگوں کو ہی نہیں بلکہ اپنے بچوں تک کو بھی بیچا ہے۔ اقتدار پلٹ سے پہلے تک افغانستان میں کڈنی دان کرنا عام نہیں تھا لیکن اب زیادہ تر کڈنی ڈونر معاشی مسائل کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں۔
 ملک کا75فیصد میڈیا مالی بحران کی وجہ سے بند ہوگیا ہے۔پترکار اور میڈیا ملازم بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ننگر  ہار، لگمن، نورستان کے مشرقی صوبوں میں 6ریڈیو سٹیشن بند کردئے گئے ہیں۔
 یہاں تک کہ بجلی   کی سپلائی کیلئے پوری طرح وسط ایشیائی ممالک پر منحصر ہونے اور ازبکستان کے ذریعے اسے بجلی کی سپلائی میں50فیصد کٹوتی کردینے سے افغانستان میں بجلی کی بھاری کمی پیدا ہوگئی ہے۔
 سب سے زیادہ کٹھارا گھات دیش کی ایک کروڑ18لاکھ مہلاؤں پر ہواہے جو ان سے چھینے گئے تعلیم کے ادھیکار، مردوں کے برابر درجہ، کام کرنے کے ادھیکار اور من پسند لباس پہننے وسماجی اور سیاسی زندگی میں اپنے اوپر لگائی گئی  پابندیاں واپس لینے کی مانگ پر زور دینے کیلئے لگاتار مظاہرہ کررہی ہیں۔
 اس ہفتے کابل میں درجنوں افغان مہلاؤں نے طالبان حکمرانوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ان میں سے متعدد مہلائیں وہ تھیں جنہیں طالبانی حکمرانوںنے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد نوکری سے نکال دیا۔
 طالبانی حکمرانوں کے ذریعے مہلاؤں پر مظالم پر عالمی برادری کی خاموشی کولیکر بھی افغانستان کی مہلاؤں میں بھاری غصہ ہے جسے ظاہر کرنے کیلئے مظاہرہ کررہی مہلاؤں نے اپنے ہاتھوں میں اپنی مختلف مانگوں کے علاوہ جو تختیاں اٹھارکھی تھیں ان پر لکھاہواتھا،'' دنیا ہمیںچپ چاپ مرتے ہوئے کیوں دیکھ رہی ہے''۔
 مہلاؤں نے دن کے وقت مظاہروں کے دوران سڑکوںپر ہونے والے تشدد سے بچنے کیلئے اپنے احتجاجی مظاہرے کے طریقے میں تھوڑا بدلاؤ کرکے رات کے وقت بھی شہروں کی دیواروںپر اپنی مانگیں لکھنی شروع کردی ہیں۔مہلاؤں کا کہناہے کہ ہم اپنا حق لیکر رہیںگی۔
 حال ہی میں نوبیل پرسکار وجیتاملالہ یوسف زئی اور کئی دیگر افغانی مہلا ادھیکار کاریہ کرتاؤں نے طالبان حکمرانوں کو ایک کھلے خط میں لڑکیوں کی تعلیم پر لگائی گئی پابندی فوراًہٹانے اور لڑکیو ں کے سکینڈری   ودیالیوں کودوبارہ کھولنے کی مانگ کی تھی۔
انہوںنے اسلامی ممالک کے نیتاؤں سے بھی طالبان حکمرانوں کو یہ سمجھانے کی اپیل کی ہے کہ ''لڑکیوں کو سکول جانے سے روکنا دھارمک روپ سے مناسب نہیں ہے۔''
 اقوام متحدہ آفس نے بھی افغان مہلاؤں اور لڑکیوں کی بدحالی پرتشویش ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیاکہ '' افغان مہلائیں بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ لہٰذاا نہیں پہلے سے کہیں زیادہ اقوام متحدہ کی مدد اور اتحاد کی ضرورت ہے۔''
 کل ملاکرآج افغانستان میں جس طرح کے حالات بنے ہوئے ہیں اور وہاں کے لوگ جس قابل رحم صورتحال میں جی رہے ہیں، اس میں تب تک کوئی سدھار آنے کی امید نہیں ہے جب تک  بین الاقوامی برادری متحد ہوکر اس کے خلاف وہاں کے حکمرانوں پر دباؤ نہ ڈالے۔

وجے کمار



Comments


Scroll to Top