نیشنل ڈیسک: بھارت نے اکتوبر میں امریکہ سے خام تیل کی درآمد 2022 کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر پہنچا دی ہے۔ یہ قدم روس سے سپلائی میں تنوع لانے اور ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بڑھتے تجارتی تناو¿ کو کم کرنے کی سمت میں اٹھایا گیا مانا جا رہا ہے۔
توانائی مارکیٹ کے تجزیہ کار ادارے کیپلر کے اعداد و شمار کے مطابق، 27 اکتوبر تک امریکہ سے بھارت کی خام تیل کی درآمد 5.4 لاکھ بیرل فی دن تک پہنچ گئی، جو دو سال میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکی برآمدی اعداد و شمار کے مطابق، اکتوبر کا مہینہ تقریباً 5.75 لاکھ بیرل فی دن کے ساتھ ختم ہونے کا امکان ہے، جبکہ نومبر میں یہ 4 سے 4.5 لاکھ بیرل فی دن کے درمیان رہ سکتا ہے۔ یہ پچھلے سال کے اوسط (3 لاکھ بیرل فی دن) کے مقابلے میں ایک بڑی چھلانگ ہے۔
روس اب بھی سب سے بڑا سپلائر
روس فی الحال بھارت کا سب سے بڑا خام تیل سپلائر بنا ہوا ہے، جو کل درآمد کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے۔ اس کے بعد عراق اور پھر سعودی عرب کا نمبر آتا ہے۔ کیپلر کے سینئر تجزیہ کار سمت رٹولیا کے مطابق، امریکہ سے درآمد میں یہ تیزی مضبوط آربٹریج ونڈو، برینٹ-ڈبلیو ٹی آئی کے وسیع فرق اور چین کی کمزور مانگ جیسے عوامل سے متاثر ہے۔
بھارتی ریفائنر اب مڈلینڈ ڈبلیو ٹی آئی اور مارس جیسے امریکی گریڈز کی خرید بڑھا رہے ہیں تاکہ سپلائی میں تنوع لایا جا سکے اور واشنگٹن کے ساتھ تعاون کا اشارہ بھی دیا جا سکے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تناو کم کرنے کی کوشش
امریکہ سے بڑھتی تیل درآمد بھارت کے لیے سفارتی طور پر بھی ایک اہم اشارہ مانی جا رہی ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت سے آنے والے سامان پر 50 فیصد تک بھاری ٹیکس لگایا تھا۔ ایسے میں امریکہ سے زیادہ تیل خریدنا تجارتی تناو¿ کو متوازن کرنے اور واشنگٹن کو مثبت پیغام دینے کی ایک اسٹریٹجک چال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
کیا یہ اضافہ پائیدار ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ ساختی نہیں بلکہ عارضی ہے۔ رٹولیا کے مطابق، "بھارت کا ریفائننگ سسٹم لچکدار ہے اور وہ مارکیٹ کے قلیل مدتی مواقع کو فوراً استعمال کر سکتا ہے، لیکن امریکہ سے درآمد بڑھانے میں لمبی شپنگ مدت، زیادہ ترسیلی لاگت اور ڈبلیو ٹی آئی کی ہلکی کوالٹی جیسے چیلنجز ہیں۔