انٹرنیشنل ڈیسک: دنیا کی نظریں اب 15 اگست پر جمی ہوئی ہیں جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پوتن الاسکا میں آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ سرکاری طور پر بحث کا موضوع روس یوکرین جنگ کا خاتمہ ہو گا لیکن پس پردہ ایک متنازعہ ' امن اسکیم' نے ہنگامہ بر پا کر دیا ہے، جس میں یوکرین کی سرزمین روس کے حوالے کرنے کی بات ہو رہی ہے اور وہ بھی یوکرین کی موجودگی کے بغیر۔ کیف انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق اس تجویز میں کہا گیا ہے کہ یوکرین اپنے دو بڑے علاقے ڈونیٹسک اور لوہانسک کو روس کے حوالے کر دے اور بدلے میں روس چھوٹے علاقوں جیسے کھارکیو اور سومی سے پیچھے ہٹ جائے گا ۔
بتایا جا رہا ہے کہ پوتن نے یہ منصوبہ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف کو پہلے ہی بتا دیا تھا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا۔ یوکرین کے ایک اعلی اہلکار نے واضح طور پر کہا کہ کوئی بھی ہماری فوج کو ہماری زمین چھوڑنے کا حکم نہیں دے سکتا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ روس پوری دنیا میں یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ یوکرین ٹرمپ کے شاندار منصوبے کو مسترد کر رہا ہے، جب کہ حقیقت میں یہ قبضے کو جائز قرار دینے کے لیے روس کی چال ہے۔ روس نے جاپو رژیا( Zaporizhia ) اور کھیرسون( Kherson ) میں موجودہ محاذ پر رکنے کی بھی بات کہی ہے، جہاں اس کا پہلے ہی 70 فیصد سے زیادہ قبضہ ہے۔ لیکن یہ بھی کیف کو قبول نہیں۔ 8 اگست کو ٹرمپ نے پوتن کے ساتھ ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کو "بہت سی چیزوں کے لیے تیار رہنا چاہیے" اور زمین کے تبادلے کا بھی اشارہ دیا۔
اس پر زیلنسکی نے ہفتے کے روز ایک ویڈیو پیغام میں جواب دیا کہ یوکرین کا آئین ہماری زمین کی حفاظت کرتا ہے، ہم روس کو ایک انچ زمین بھی نہیں دیں گے۔سب سے متنازعہ پہلو یہ ہے کہ یوکرین کے مستقبل کے بارے میں بات چیت جاری ہے لیکن اسے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔ تاہم این بی سی نیوز کے مطابق وائٹ ہاؤس اب زیلینسکی کو بلانے پر غور کر رہا ہے۔ الاسکا میں ان کی موجودگی کی ابھی تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ "مکمل طور پر ممکن ہے" اور اس پر بات چیت جاری ہے۔ الاسکا میں ہونے والی ملاقات نہ صرف جنگ کے خاتمے پر اثر ڈالے گی بلکہ امریکہ اور روس کے تعلقات کی سمت پر بھی اثر ڈالے گی اور کیا واشنگٹن یوکرین کو رعایتوں کے لئے مجبور کرے گا ، جنہیں وہ اب تک سختی سے مسترد کرتا آیا ہے ۔