نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بہار کی ووٹر لسٹ کے خصوصی جامع نظرثانی تنازعہ کی سماعت کے دوران کہا کہ الیکشن کمیشن کا آدھار کارڈ کو شہریت کا حتمی ثبوت نہ ماننا درست ہے۔ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جائےمالیا باگچی کی بنچ اس دلیل سے بھی متفق نہیں تھی کہ بہار کے لوگوں کے پاس خصوصی جامع نظرثانی کے دوران انتخابی کمیشن کی جانب سے بطور ثبوت مانگے گئے زیادہ تر دستاویزات موجود نہیں تھے۔
بنچ نے کہا کہ اس تنازعے کے پیچھے اعتماد کی کمی کافی حد تک غلطی ہے اور کچھ نہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے دونوں فریقوں کی طرف سے تفصیل سے دلائل پیش کیے گئے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل، ابھیشیک منو سنگھوی اور پرشانت بھوشن نے دلائل دیے۔ درخواست گزاروں میں شامل سوراج انڈیا کے لیڈر یوگندر یادو نے گرافکس کے ذریعے خود اپنا موقف پیش کیا۔ انتخابی کمیشن کی جانب سے سینئر وکیل راکیش دیویدی نے دلائل دیے۔ عدالت کے سامنے انتخابی کمیشن نے دعویٰ کیا کہ کل 7.9 کروڑ ووٹروں میں سے تقریباً 6.5 کروڑ افراد کو کوئی بھی دستاویز جمع کرانے کی ضرورت نہیں پڑی، کیونکہ ان کا یا ان کے والدین کا نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں موجود تھا۔
بنچ نے کمیشن کی جانب سے پیش کیے گئے ان دلائل پر درخواست گزار اور آر جے ڈی کے رہنما و رکن پارلیمنٹ منوج جھا کی طرف سے پیش سینئر وکیل سبل سے پوچھا:"اگر 7.9 کروڑ ووٹروں میں سے 7.24 کروڑ نے خصوصی نظرثانی جائزہ کا جواب دیا ہے تو یہ اعداد و شمار ایک کروڑ ووٹروں کے لاپتہ یا ان کے ووٹ کے حق سے محروم ہونے کی دلیل کو مسترد کر دیتے ہیں۔ بنچ نے درخواست گزاروں سے سوال کیا کہ انتخابی کمیشن کے 24 جون کو خصوصی نظرثانی جائزہ کرانے کے فیصلے کو اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا تھا کہ اس سے ایک کروڑ ووٹر اپنے حق رائے دہی سے محروم ہو جائیں گے۔
سینئر وکیل سبل نے دلیل دی کہ رہائشیوں کے پاس آدھار، راشن اور ووٹر کارڈ ہونے کے باوجود حکام نے ان کے کاغذات قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بنچ نے کہا، "کیا آپ کا موقف یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس کوئی کاغذات نہیں ہیں لیکن وہ بہار میں ہیں، اس لیے انہیں ریاست کا ووٹر مانا جانا چاہیے؟" مسٹر سبل نے کہا کہ لوگوں کو اپنے والدین کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ اور دیگر کاغذات تلاش کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔
اس پر بنچ نے کہا، "یہ ایک بہت ہی عام بیان ہے کہ بہار میں کسی کے پاس کاغذات نہیں ہیں۔ اگر بہار میں ایسا ہے تو ملک کے دوسرے حصوں میں کیا ہوگا؟ سینئر وکیل سنگھوی اور وکیل پرشانت بھوشن نے بھی خصوصی نظرثانی کے عمل کی تکمیل کی مدت کے ساتھ ساتھ ان 65 لاکھ ووٹروں کے اعداد و شمار پر سوال اٹھایا جنہیں فوت شدہ یا دیگر انتخابی حلقوں میں رجسٹرڈ قرار دیا گیا ہے۔ سوراج انڈیا کے لیڈر مسٹر یادو نے انتخابی کمیشن کے پیش کردہ اعداد و شمار پر سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ 7.9 کروڑ ووٹروں کے بجائے کل بالغ آبادی 8.18 کروڑ تھی اور نظرثانی کے عمل کا مقصد ووٹروں کو ہٹانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کسی بھی ایسے شخص کو تلاش نہیں کر سکا جس کا نام شامل کیا گیا ہو۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ میں بدھ کو بھی سماعت ہوگی۔