نیشنل ڈیسک: مغربی ایشیا میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھی ایران کے بارے میں اپنا موقف سخت کر دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ کہاں چھپے ہوئے ہیں اور ہم انہیں آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے خامنہ ای سے "غیر مشروط ہتھیار ڈالنے" کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی دباؤ میں ایران
دریں اثنا بڑے مغربی ممالک جیسے جرمنی، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران اپنا جوہری پروگرام مکمل طور پر ترک کر دے۔ مسلسل بین الاقوامی دباؤ اور اسرائیلی حملوں کے درمیان یہ سوال اٹھنا شروع ہو گیا ہے کہ کیا ایران کو یہ جنگ تنہا لڑنا پڑے گی؟
'مزاحمت کی بنیاد' پر بحران
ایران نے کئی سالوں سے اپنے 'مزاحمتی محور' کی مدد سے خطے میں اثر و رسوخ برقرار رکھا ہے، جس میں لبنان کی حزب اللہ، عراق کی پاپولر موبلائزیشن فورسز (PMF)، یمن کے حوثی باغی اور غزہ کی حماس جیسی تنظیمیں شامل ہیں۔ تاہم اسرائیل نے گزشتہ دو سالوں میں ان اتحادیوں کو سٹریٹجک طور پر کمزور کیا ہے۔ حزب اللہ کے ہتھیاروں کے اڈوں کو تباہ کر دیا گیا، اور اس کے سرکردہ رہنما حسن نصر اللہ کے قتل نے ایک نفسیاتی جھٹکا دیا ۔
شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد ایرانی ملیشیا کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ یہ ایران کے لیے ایک اور بڑا جھٹکا ہے۔ تاہم، عراق اور یمن میں ایرانی اثر و رسوخ مضبوط ہے -جہاں ان اتحادی گروپوں کے پاس 200,000 سے زیادہ جنگجو ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت
ایران نے حال ہی میں اسرائیلی حملوں کے جواب میں پاکستان کے قریب آنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران کی "غیر متزلزل حمایت" کا وعدہ کیا ہے، جب کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اسرائیل کو "پاکستان کا سامنا کرنے سے پہلے دو بار سوچنا پڑے گا۔ تاہم، پاکستان کشیدگی کو کم کرنے اور جنگ کو روکنے کے لیے چین جیسے اسٹریٹجک شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے سفارتی کوششیں بھی کر رہا ہے۔
سفارت کاری کی راہ اور عالمی صورتحال
ایران نے سعودی عرب، مصر اور ترکمانستان جیسے پرانے حریفوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ تقریبا 24 مسلم ممالک نے مشترکہ طور پر اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ملک اب تک ایران کو براہ راست فوجی مدد فراہم کرنے کے لیے آگے نہیں آیا۔
روس اور چین جیسے عالمی شراکت داروں نے بھی اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ میں ایران کے دفاع میں کردار ادا کیا ہے۔ لیکن وہ بھی فی الحال براہ راست فوجی مداخلت سے فاصلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اگر امریکہ واقعی حکومت کی تبدیلی کی حکمت عملی پر عمل کرتا ہے تو ایران کے اتحادیوں کا کردار اور وسیع جنگ کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔