انٹرنیشنل ڈیسک: اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے اسرائیل کو بہت زیادہ معاشی نقصان ہو رہا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل کو روزانہ تقریباً 200 ملین ڈالر (تقریباً 1700 کروڑ روپے) کا خرچ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
سب سے بڑا خرچ - میزائل انٹرسپیشن
اس جنگ میں سب سے بڑا خرچہ ایران کی طرف سے فائر کیے گئے میزائلوں کو فضا میں ہی روکنے پرہو رہا ہے۔ اسرائیل کا ’آئرن ڈوم‘ دفاعی نظام اور دیگر سیکیورٹی ٹیکنالوجیز دشمن کے میزائلوں اور ڈرون حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں تاہم ان کا استعمال بہت مہنگا ہے۔ ہر انٹرسپیشن پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
فضائی حملے اور فوجی آپریشن بھی مہنگے ہیں۔
اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کی جانب سے فضائی حملے، زمینی آپریشن اور فوجیوں کی تعیناتی سے بھی جنگی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جنگ جتنی دیر تک جاری رہے گی، ملکی معیشت پر اتنا ہی اثر پڑے گا۔
معاشی دباوبھی بڑھ رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ تنازعہ طویل عرصے تک جاری رہا تو اس کے اسرائیل کی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو دیگر شعبوں کے بجٹ میں کٹوتی کرنی پڑ سکتی ہے، جیسے کہ صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے لیے مختص رقم۔
آگے کیا ہوگا؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا اتنے بڑے اخراجات کے باوجود اسرائیل اس جنگ کو طول دے پائے گا یا اسے معاشی دباو کی وجہ سے کوئی حل تلاش کرنا پڑے گا۔