انٹرنیشنل ڈیسک: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے درمیان آج وائٹ ہاوس میں لنچ ملاقات ہوگی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب مغربی ایشیا میں ایران اور اسرائیل کی جنگ بڑھ رہی ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں ایران کے حق میں حمایت کا اظہار کیا ہے جب کہ ٹرمپ شروع سے ہی ایران کے خلاف اپنے سخت موقف کے لیے جانے جاتے ہیں۔
Truth Social پر ٹرمپ کی حالیہ پوسٹس بھی واضح طور پر ان کا تہران مخالف رویہ ظاہر کرتی ہیں۔ انہوں نے ایک پوسٹ میں یہاں تک کہا کہ "غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیں، ہمیں معلوم ہے کہ سپریم لیڈر کہاں چھپے ہوئے ہیں، اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ غور طلب ہے کہ ٹرمپ نے 2020 میں ایرانی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم بھی دیا تھا۔
پاک آرمی چیف کے خلاف امریکہ میں احتجاج
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) امریکہ اور دیگر سول تنظیموں نے جنرل عاصم منیر کے دورہ امریکہ کے دوران واشنگٹن ڈی سی میں فور سیزنز ہوٹل کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے جنرل منیر پر سخت الزامات لگائے اور نعرے لگائے - جیسے 'ڈکٹیٹر' اور 'پاکستانیوں کے قاتل'۔ کارکن نازیہ امتیاز حسین نے اسے 'فسطائیت کے خلاف جدوجہد' قرار دیا۔ مظاہرین نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج لوگوں کو ان جرائم کی یاد دلانے کے لیے تھا جن کا مبینہ طور پر جنرل منیر پر الزام ہے۔
جنرل منیر کا ایران کی حمایت میں بیان
امریکہ میں ایک عوامی تقریب کے دوران جنرل منیر نے کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ کھڑا ہے اور تنازع کے پرامن حل کی امید رکھتا ہے۔ ان کے اس بیان نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان سفارتی توازن کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے کیونکہ امریکہ اس وقت ایران پر فوجی دباو ڈال رہا ہے۔
یہ ملاقات کیوں اہم ہے؟
ٹرمپ اور منیر کی ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب دونوں ممالک کی پالیسیوں میں فرق واضح طور پر نظر آ رہا ہے - خاص کر ایران کے حوالے سے۔ جہاں ٹرمپ ایران کے خلاف جارحانہ پالیسی کے حق میں ہیں وہیں پاکستان کے آرمی چیف نے کھل کر ایران کی حمایت کی ہے۔ اسے سفارتی ستم ظریفی بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ دونوں رہنما ایک ساتھ لنچ کر رہے ہیں۔
پاکستانی کمیونٹی کا غصہ
اس پورے واقعے نے امریکہ میں آباد پاکستانی کمیونٹی میں پاک عسکری قیادت کے خلاف غصے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ احتجاج نہ صرف جنرل منیر کے خلاف غصہ ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ میں پاکستانی جمہوریت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔