انٹرنیشنل ڈیسک: ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان تنازعات نے سفارتی تعلقات میں تناؤ پیدا کر دیا ہے جس سے آگے چل کر اقتصادی اور سماجی تعلقات مزید متاثر ہوں گے ۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی قومی سلامتی کی مشیر نتھالی ڈروئن اور وزارت خارجہ کے نائب وزیر ڈیوڈ موریسن پر سنگین الزامات لگے ہیں کہ انہوں نے امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کے ساتھ ہندوستان کے خلاف حساس خفیہ جانکاری شیئر کی۔
https://x.com/ShivanChanana/status/1851415480919044293?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1851415480919044293%7Ctwgr%5E793b07dbdb3732f8699f7568b2933151fdd5e624%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.punjabkesari.in%2Fnational%2Fnews%2Ftrudeau-s-advisers-shared-sensitive-intelligence-about-india-2054472
یہ خبر ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کینیڈین حکام نے ہندوستانی حکومت کے اقدامات کے حوالے سے سنگین الزامات لگائے ہیں جس سے تعلقات میں مزید دراڑ آ رہی ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے حال ہی میں ہندوستان میں شہریوں اور خالصتانی حامیوں پر حملوں کے الزامات میں ہندوستان کو گھسیٹا۔ اس سے قبل ٹروڈو نے ہندوستانی ہائی کمشنر سنجے کمار ورما اور کئی دیگر ہندوستانی سفارت کاروں کو سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے جوڑا تھا، جنہیں20 ستمبر 2023 کو ونی پیگ میں قتل کیا گیا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ
کینیڈا کے 'دی گلوب اینڈ میل' کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ڈروئن اور موریسن نے 'واشنگٹن پوسٹ' کو ہندوستان کی مبینہ مداخلت کے بارے میں جانکاری دی ، جو امریکہ میں ہندوستان کی سرگرمیوں کے بارے میں تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ خفیہ جانکاری رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس (RCMP) کی طرف سے دی گئی ایک نیوز کانفرنس سے پہلے شیئر کی گئی تھی، جو تھینکس گیونگ ڈے پر منعقد ہونے والی تھی۔
ہندوستان نے قدم اٹھائے
تنازعہ کے چلتے ، نئی دہلی نے سنجے کمار ورما اور پانچ دیگر کینیڈین سفارت کاروں کو واپس بلا لیا ہے اور چھ کینیڈین سفارت کاروں کو بھی ہندوستان سے نکال دیا ہے۔ اس کارروائی سے دونوں ممالک کے درمیان صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔
کینیڈین کمشنر کا بیان
آر سی ایم پی کمشنر مائیک ڈوہیمے نے گل کے قتل اور ہندوستان کے درمیان کسی تعلق کی تصدیق نہیں کی ہے۔ وہیں، CSIS کے سابق ایگزیکٹو ڈین اسٹینٹن نے کہا ہے کہ اس قسم کی حساس معلومات عام طور پر خفیہ ہوتی ہیں اور اسے عام نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر 'واشنگٹن پوسٹ' کے ذریعے شیئر کی جانے والی معلومات خفیہ ہیں تو اسے ایک خاص انتظام کے تحت ہی شیئر کیا جا سکتا ہے۔