نیشنل ڈیسک: 'اگر کبیر کی وانی ، الفاظ، کو اقتدار کے ٹھیکیداروں نے نہ دبایا گیاہوتا تو 500 سال پہلے ہی ہندوستان کی تصویر کہیں زیادہ خوبصورت ہوتی۔ جتنا وقت آگے بڑھ رہا ہے، ہم کبیر کے اتنے ہی قریب ہوتے جا رہے ہیں۔
ہندوستان کی سنت روایت میں سنت کبیر کا مقام بہت خاص اور انقلابی ہے۔ وہ نہ صرف بھگتی کے شاعر تھے بلکہ ایک نڈر مفکر تھے جنہوں نے اپنے وقت کی مذہبی، سماجی اور فکری منافقت پر حملہ کیا۔ ان کا علم صرف روحانی رہنمائی نہیں تھا بلکہ یہ سماجی شعور اور انسانی وقار کا اعلان تھا۔
کبیر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوںنے مذہب کو خود شناسی اور خود شناسی کا موضوع بنایا، نہ کہ اندھ بھگتی اور رسومات کا ۔ ان کے الفاظ ذات پات کے امتیاز اور سماجی عدم مساوات کے خلاف بغاوت کی آواز تھے۔ انہوں نے اونچ نیچ، اچھوت اور مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کو کھل کر چیلنج کیا۔
عبوری دور میں انقلاب کی مشعل: 500 سال پہلے، ہندوستان گہری منتقلی اور جبر کا دور دکھ رہا تھا۔ ایک طرف مذہبی جنونیت کے نام پر ایک دور دیکھا جا رہا تھا۔ ایک طرف مذہبی جنونیت کے نام پر مسلم حکمرانوں کا دمن چکر چل رہا تھا، جو غیر مسلموں کو کافر سمجھتے تھے، اور دوسری طرف ہندو سماج میں کچھ ذات پات کے ٹھیکیدار بھی تھے، جو پیدائش کے گھمنڈ میں اندھے ہو کر عمل کو معمولی سمجھتے تھے۔ ایسے وقت میں کبیر نے اپنے بے خوف الفاظ سے دونوں اطراف کو آئینہ دکھایا۔
کبیر کی وانی : ظلم اور غفلت کا شکار: کبیر نے خیالی وانیوں اور من گھڑت مذہبی عقائد پر سخت تنقید کی۔ وہ کہتے ہیں: 'خیالی وانی بغیر پیروں کے دس سمتوں میں چلتی ہے، دنیا کو بغیر عقل کے آنکھوں سے دیکھتی ہے۔' کبیر کی وانی نے حکام اور ذات پرستوں کو بے چین کر دیا، اس لیے ان کی ساکھیاں، الفاظ اور رمینیاں طویل عرصے تک دبا ئی یا نظر انداز کر دی گئیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پچھلی 5 صدیوں میں ہندوستان کی سماجی، سیاسی اور معاشی سمت بدل چکی ہوتی۔
اندھ وشواشوں کے خلاف سچائی کی مشعل: کبیر کہتے ہیں: 'مایا میری نہ من مرا، مر- مرگئے شریر۔ آشا ترشنا نہ میری، کہہ گئے داس کبیر۔' کبیر کی واضح رائے تھی کہ رسومات اور روڑ وادی روایات مذہب کو بوجھل اور معاشرے کو مفلوج بنا دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اگر حواس اور ذہن قابو میں نہ ہوں تو تمام علم، سائنس، فلسفہ اور کارنامے بے کار ہیں۔
بیجک-ایک بیدار کتاب: 'بیجک' صرف ایک روحانی کتاب نہیں ہے بلکہ ایک سماجی انقلاب کی دستاویز ہے۔ اس میں کبیر کا فلسفہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عام آدمی کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اور اسے خود شناسی کی ترغیب دیتا ہے۔
کبیر کا پورن جاگرن آج کی ضرورت ہے: آج بھی ہندوستانی سماج میں ذات پات، مذہب، زبان اور طبقے کے نام پر امتیازی سلوک رائج ہے۔ جب تک یہ تفریق ختم نہیں ہوتی، ہم ایک مہذب اور مساوی معاشرے کا تصور نہیں کر سکتے۔ یہ امتیاز اسی وقت ختم ہوگا جب ایک نیا سماجی نظام جنم لے گا اور اس نئے نظام کی بنیاد سنت ادب اور ان کے افکار ہوں گے۔
نئی نسل کے لیے کبیر کا پیغام: آج ضرورت اس بات کی ہے کہ کبیر، نانک، رویداس، دادو جیسے بزرگوں اور بزرگوں کی یوم پیدائش اور یوم وفات محض رسمی نہ رہے بلکہ علم و شعور کی تقریبات بن جائیں۔ اس سے نئی نسل کو ایک ہم آہنگ، مہذب اور باشعور معاشرے کی تشکیل کی تحریک ملے گی۔
(ریاستی صدر، بی جے پی، شیڈول کاسٹ فرنٹ، ہریانہ/سابق ایم ایل اے، پٹودی)