انٹرنیشنل ڈیسک: ایران اور اسرائیل کے درمیان فوجی کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہیں، رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے کہا کہ اسرائیل نے حال ہی میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جسے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ویٹو کر دیا تھا۔ حکام کے مطابق اسرائیل نے امریکہ کو آگاہ کیا تھا کہ اس کے پاس خامنہ ای کو قتل کرنے کا موقع ہے تاہم ٹرمپ نے اسے مسترد کردیا۔ ایک سینئر امریکی اہلکار نے کہا کہ جب تک ایران کسی امریکی کو نہیں مارتا، ہم سیاسی قیادت کو نشانہ بنانے کی بات بھی نہیں کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ رابطہ برقرار رکھا ہے، خاص طور پر جب سے اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے ایک بڑا حملہ شروع کیا ہے۔ اگرچہ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے اس رپورٹ پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم انہوں نے میڈیا رپورٹس کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل جو بھی ضروری سمجھے گا وہ کرے گا۔
اس سے قبل ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل سے معاہدہ کرنے کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ ان کی مداخلت سے کئی ممالک کے درمیان امن قائم کرنے میں مدد ملی ہے۔ تاہم، ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے ٹرمپ کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے اسے "دھمکی" قرار دیا اور کہا کہ امریکی مذاکرات کا مقصد دباؤ بڑھانا ہے، مسائل کو حل کرنا نہیں۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع کے تیسرے روز اسرائیل نے ایران کی جوہری اور میزائل تنصیبات پر حملہ کیا جب کہ ایران نے میزائلوں سے جواب دیا جس سے دونوں ممالک کے متعدد شہری مارے گئے۔ تنازعہ نے علاقائی عدم استحکام میں اضافہ کیا ہے اور تیل کی عالمی منڈیوں کو متاثر کیا ہے۔
ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی مفادات پر حملہ ہوا تو امریکہ پوری طاقت سے جواب دے گا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان پرامن حل ممکن ہے۔ اس پیش رفت سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے اقدامات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے اس کے مفادات اور سٹریٹجک اہداف کا جامع جائزہ لے رہا ہے۔