نیویارک: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ  ہندوستان نے روس سے تیل کی خرید میں نمایاں کمی کی ہے، اور اس معاملے میں  ہندوستان  "بہت اچھا" رویہ اختیار کر رہا ہے۔ ٹرمپ نے یہ تبصرہ جنوبی کوریا کے بوسان میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ دو طرفہ ملاقات کے بعد کیا۔ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہندوستان نے روس سے تیل کی درآمد کم کرنے کا یقین دلایا ہے، جبکہ چین اب بھی بڑی مقدار میں روسی تیل خرید رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے تیل کی درآمد پر ہمارا زیادہ کنٹرول نہیں ہے، لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان  اس محاذ پر بہت اچھا رہا ہے۔ ہم نے تیل پر زیادہ بات نہیں کی، بلکہ جنگ ختم کرنے پر تعاون کی بات کی۔
یہ بیان اے پی ای سی سربراہی اجلاس (APEC Summit) کے دوران آیا، جہاں ٹرمپ اور شی جن پنگ کے درمیان گفتگو ہوئی۔ ٹرمپ نے یہ بھی دوہرایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ہندوستان روسی خام تیل کی خرید میں کمی کرے گا جو روس کے لیے یوکرین جنگ کے دوران آمدنی کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ ہندوستان کے وزارتِ خارجہ نے ٹرمپ کے اس دعوے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی توانائی کی پالیسی مکمل طور پر قومی مفاد اور صارفین کی حفاظت پر مبنی ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہاکہ ہندوستان تیل اور گیس کا ایک اہم درآمد کنندہ ملک ہے۔ ہماری ترجیح ہمیشہ بھارتی صارفین کے مفاد کی حفاظت رہی ہے۔ ہماری پالیسی مستحکم قیمتیں اور محفوظ فراہمی یقینی بنانے پر مرکوز ہے۔ اسی وجہ سے ہم اپنی توانائی کے ذرائع کو متنوع بناتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون مسلسل مضبوط ہوا ہے اور موجودہ انتظامیہ اس تعاون کو مزید گہرا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
یوکرین جنگ کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے روس پر توانائی کے پابندیاں عائد کی ہیں اور دیگر ممالک سے بھی روسی تیل کی خرید کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، ہندوستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس کے فیصلے گھریلو اقتصادی استحکام اور صارفین کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کے اس بیان سے اشارہ ملتا ہے کہ واشنگٹن نئی دہلی پر اعتماد کر رہا ہے، اور ہندوستان کا متوازن رویہ امریکہ کے اسٹریٹجک مفادات کے مطابق سمجھا جا رہا ہے۔