نئی دہلی:تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے اور کسی بھی ملک کی ترقی کا ستون ہے جب حکومتیں تعلیمی نظام کو سہل، سستا اور عام فہم بناتی ہیں، تو وہ قوم کی بنیاد کو مضبوط بناتی ہیں تاہم، ہندوستان میں جب سے جی ایس ٹی (گڈز اینڈ سروسز ٹیکس) نافذ کیا گیا ہے، تعلیم اور اسٹیشنری کے سامان پر اس کا براہِ راست اثر دیکھا گیا ہے جی ایس ٹی ایک بالواسطہ ٹیکس ہے جو یکم جولائی 2017 کو ہندوستان میں نافذ کیا گیا۔ اس کا مقصد مختلف ریاستی و مرکزی ٹیکسز کو ختم کرکے ایک واحد نظام لانا تھا۔ لیکن اس نئے نظام نے کچھ ایسے شعبوں کو بھی متاثر کیا جو پہلے سے ہی مالی طور پر دباو¿ میں تھے، جیسے کہ تعلیم اور اسٹیشنری کا شعبہ۔
تعلیم کا شعبہ بظاہر ٹیکس فری قرار دیا گیا ہے، لیکن حقیقت میں بہت سی ایسی خدمات جن کا تعلیم سے گہرا تعلق ہے، ان پر جی ایس ٹی عائد ہے، جیسے: پرائیویٹ کوچنگ سینٹرز: ان پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگتا تھا، جو کہ طلبہ کی مالی بوجھ میں اضافہ کرتا تھا۔ لیکن اب اسے کم کرکے صفر کردیا گیا ہے۔
آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز: ان پر بھی جی ایس ٹی عائد ہے، حالانکہ موجودہ دور میں آن لائن تعلیم بہت اہمیت رکھتی ہے۔
تعلیمی اداروں کی خریداری پر جی ایس ٹی: جب اسکول یا کالج اسٹیشنری، فرنیچر یا دیگر اشیائ خریدتے ہیں، تو انہیں جی ایس ٹی ادا کرنا پڑتا ہے، جس سے مجموعی اخراجات بڑھتے ہیں۔
اسٹیشنری کے سامان پر جی ایس ٹی طلبہ کے استعمال میں آنے والے اسٹیشنری کے بیشتر سامان پر جی ایس ٹی لاگو ہوتا تھا، جیسے:
اشیائ جی ایس ٹی ریٹ قلم، پینسل، ربڑ، شارپنر 12 فیصد، کاپی، رجسٹر 12، پرنٹر، کاغذ 1ٍ8 فیصد، اسکول بیگ 18 فیصد لگتا تھا جسے اب صفر کردیا ہے یعنی ٹیکس سے مستثنی قرار دیا ہے۔
ان اونچی ٹیکس کی شرحوں کی وجہ سے اسٹیشنری کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا تھا، جی ایس ٹی میں کمی کی وجہ سے اب اس میں کافی حد تک کمی ہوجائے گی، جس کا براہِ راست اثر عام طلبہ، خصوصاً غریب اور متوسط طبقے کے بچوں پر پڑے گا۔ جس کی وجہ سے والدین اور عام متوسط طبقوں پر اس کا بوجھ بہت حد تک کم ہوجائے گا۔ ٹیکس میں کمی وجہ سے طالب علموں کو تعلیم حاصل کرنے میں سہولت ہوگی۔