National News

آخر کیوں کرتی ہیں  مہلائیں آتم ہتیا

آخر کیوں کرتی ہیں  مہلائیں آتم ہتیا

مہلا سماج  کا درپن ہوتی ہے ۔ اگر کسی سماج کی حالت کو دیکھنا ہو تو وہاں کی ناری  کی حالت  کو دیکھنا  ہوگا۔ ناری  ایک  سنگھرش  کی ہی  نہیںوہ تیاگ  اور ممتاکا مجسمہ بھی ہے ۔ وہ  انسان ہی نہیں   بلکہ ایک  طاقت بھی ہے جو وقت آنے پردانوؤںکا ناش   بھی  کر تی ہے۔
 پریوار، سماج اور راشٹر کوسنسکار دینے والی مہلا جو کہ بہن،  پتنی، ماں اور  سماج   کی نماتری  بھی ہے،ایسے  سماج  میںجنم سے لے کر موت تک ایک بہت بڑا  رول  ادا کرتی ہے۔ مہادیوی ورما نے کہا تھا کہ کچھ  ناری   صرف انسان  ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ شاعری اور محبت کی  پرتی  مورتی  بھی ہوتی ہے۔ 
مرد  وجئی  کا بھوکا ہوتا ہے اور  ناری سمرپن  کی  ۔ مہلاؤں کے  سشکتی کرن  کے  لئے  بھارت سرکار نے  کئی منصوبے بنائے  ہیں جس کے نتیجے میں  مہلائیں ہر میدان میں مردوں سے آگے  ہی نکل  آکر مختلف  ریکارڈز قائم کر رہی ہیں۔
 اسی طرح مہلاؤں سے  متعلق  مختلف جرائم  پر بندش  لگانے کے  لئے سرکار نے  وقت  وقت پر سخت سے سخت  قوانین  بھی نافذ کئے ہیں۔مثال کے طور پر 1860میں  بال وواہ  روکنے کے  لئے   قانون بنایا گیا اور بعد میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال کر دی گئی۔ جسے اب بڑھا کر 21سال کی جا رہی ہے۔
جہیز  پرتھا کو روکنے کے  لئے  سال 1961 میں قانون بنایا گیا اور سال 1987میں  مہلاؤں کی فحش تصاویر دکھانے کے خلاف سخت ایکٹ بنایا گیا۔ کام کی جگہوں پر کام  کاجی مہلاؤں کے خلاف  ہونے والے جنسی استحصال کو روکنے کے  لئے  سخت ضابطے  بنائے گئے۔
 اس کے ساتھ ساتھ مہلاؤں کے  ساتھ  یومیہ  سطح پر ہونے والے گھریلو تشدد کو روکنے کے  لئے  سال 2005 میں ویمن پروٹیکشن ایکٹ  بنایا گیا۔ لیکن ان  سب  دفعات کے باوجود  بھی سماج   کی ذہنیت میں اب بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔
 مہلاؤں کے خلاف جرائم کے واقعات  بڑھتے  ہی  جارہے    ہیں۔ مہلائیں  زیادہ  تر  تناؤ سے متاثر  زندگی گزاررہی ہیں اور ان میں آتم ہتیا کرنے کا رجحان بڑھتا  ہی جا رہا ہے۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق   ملک میں 15 سے 49 سال کی عمر  میں 20 فیصد شادی شدہ  مہلاؤں نے  اپنے  جیون ساتھی کے تشدد کو جھیلا ہے اور اسی زمرے میں  ہی گھریلو خواتین سب سے زیادہ  آتم ہتیائیں کررہی ہیں۔
 نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق سال 2020میں 22,373گھریلو خواتین نے آتم ہتیاں   کیں اور اس طرح ہر دن بھارت کی 61  مہلائیں آتم ہتیائیں کر رہی ہیں۔ مہلاؤں کے ذریعے  کی جانی والی آتم ہتیاؤں کی   وجوہات کا جائزہ کچھ  اس طرح  سے  لیا جا رہا ہے۔
 -  آتم  ہتیا کرنے  والی مہلا کو جب  یہ لگنے لگتا ہے کہ اس کے دماغی  مسائل کا کوئی اور حل نہیں ہے تب اس  میں ایک ڈپریشن پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی ذہنی حالت  خراب ہوجاتی ہے اور اس کا منفی   نقطہ نظر   اسے  آتم ہتیا   کیلئے  پریرت   کرتا ہے۔
- ایسی عورتیں جو گھر میں اکیلی رہتی ہیں اور انہیں  پتی کا  مطلوبہ پار نہیں مل پاتا۔ وہ بھی غیر متوازن  رہتی ہیں۔ کئی مہلاؤں کے  پتی  فوج میں یا  بدیشوں میں رہتے ہیں، پیچھے سے  انہیں   اپنے سسرال والوں کے طعنے سننے پڑتے ہیں اور ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔
 شرم کے مارے  بہت سی  مہلائیں تناؤ  کے بارے  میں پنے  ماں باپ  سے  بات   شیئر نہیں کرتی  ۔  وقت رہتے ان کی کونسلنگ  نہیں ہوپاتی اور وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ  کچھ مہلاؤں  کے پتیوں کا کسی  دوسری مہلا سے جنسی تعلق بن جاتا ہے اور وہ اپنی  پتنیوں کی پرواہ کئے بغیر  رنگ  رلیاں منانے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی  پتنی  کو نظر انداز کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ شوہر اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ اپنا مذہب بدل کر دوسرا مذہب اختیار کر لیتے ہیں اور دوسری  پتنی کو رکھ لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
- آج  کے   نوجوانوں میں  بدیشوں میں رہنے کا رجحان بڑھتاجا رہا ہے۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے  بدیش میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر ان کے  من میں  وہاںکے  مستقل  نواسی  بننے  کی  لالچ  سی  پیدا ہوجاتی ہے  ۔ وہ اپنے ماں باپ کو  بتانے کی بجائے  بدیشی  لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں۔ 
 اپنے وطن آنے پروہ  دوسری شادی بھی  کرلیتے  ہیں۔ لیکن کچھ  ہی دنوں کے بعد ان کی غیر ملکی شادی کا پتہ چلتا  ہے اور اب دیسی لڑکی کے پاس سوائے تناؤ کے   کچھ نہیں بچتا اور اس میں  آتم ہتیا  کا رجحان پیدا ہونے لگتا ہے۔
- بال وواہ   بھی ایسے واقعات کیلئے ذمہ دار ہیں۔  بال وواہ  کی  وجہ  سے   عورت  خود کا فیصلہ  نہیں لے پاتی۔ پختگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ  تناؤ کا شکار ہو کر   آتم ہتیا  کو مجبور ہو جاتی ہے۔
- غریبی بھی ایک ایساابھیشاپ ہے کہ کئی پریواروں  کو دو وقت کی روٹی بھی  نصیب نہیں ہوتی۔ایک عورت جس کا پتی  شرابی ہے یا کچھ بھی نہ کماتا  ہو  اور گھر  پر تین -چار بچے   اور وہ بھی لڑکیاں  ہی ہوں تو اکیلی  لاچار مہلا بے بس ہوکر  آتم ہتیا  کرلینے کی  سوچتی ہے۔
(rmsharma4453@gmail.com)



Comments


Scroll to Top