بھاجپا راج کے دور میں کئی جھٹکے کھانے کے بعد، کانگریس پارٹی اپنی سیاسی حکمتِ عملی کو پوری طرح بدل رہی ہے۔ خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں پارٹی کی جڑیں گہری رہی ہیں اور آج بھی کانگریس کا وہاں عوامی اثر موجود ہے۔ چاہے نئی نسل کے سیاست دان ہوں یا پھر ناراض رہنے والے رہنما، 'سب کا ساتھ، سب کا وکاس' کے فارمولے پر کانگریس بھی عمل کرتے ہوئے اگلے انتخابات تک اپنے کارکنوں میں آہستہ آہستہ نئی جان ڈالنے لگی ہے۔
اتر بھارت میں ہماچل چھوٹا سا ہی سہی، مگر کانگریس کی حکومت والی وہ ریاست ہے جہاں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر کا بھی تعلق رہا ہے۔ اسی ریاست میں کانگریس کی نئی تنظیم بننے جا رہی ہے، جس کا عمل بی جے پی کی نئی تشکیل شدہ تنظیم کے فورا ًبعد ہوگا۔ کانگریس میں چاہے کچھ تاخیر ہوئی ہے لیکن بہت جلد پارٹی کو پرانے اور بالائی ہماچل سے نیا ریاستی صدرملنے جارہا ہے ۔
اس نئی ٹیم کے اعلان سے ٹھیک پہلے پارٹی نے اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کرتے ہوئے سابق وزیراعلی ویر بھدر سنگھ کے مجسمے کے افتتاح کو پارٹی اتحاد کی علامت کے طور پر منایا۔ اس پروگرام کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ 'ہالی لاج' سے جڑی ہر یاد آج بھی کانگریس کی روح کا حصہ ہے۔ پرینکا گاندھی کا اس موقع پر آنا، ویر بھدر سنگھ کی تعریف کرنا اور وزیراعلی سکھوندر سنگھ سکھو کی تعریفوں کے پل باندھنا، ان سب نے یہ واضح پیغام دیا کہ کانگریس متحد ہے۔
ویسے بتا دیں کہ ایک وقت تھا جب ہماچل میں ویر بھدر سنگھ وزیراعلی رہتے ہوئے سونیا گاندھی کے ساتھ ان کے تعلقات اتنے گہرے نہیں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ویر بھدر ہمیشہ اپنے وفادار ارکانِ اسمبلی کی ٹیم کے بل پر اقتدار میں بنے رہے۔ اس دور میں سونیا گاندھی کی پسند ودیا اسٹوکس اور آنند شرما کو ویر بھدر نے کبھی خاص ترجیح نہیں دی۔ ہائی کمان کی طرف سے مقرر انچارج ہو یا کوئی بھی پارٹی صدر، ویر بھدر سنگھ کے آگے کسی کی نہیں چل پاتی تھی۔
لیکن اب وقت کے ساتھ 'ہالی لاج' کا وہ اثر نہیں رہا۔ اور اب تو پارٹی کی صدر پربھا سنگھ کا بدلنا بھی طے مانا جا رہا ہے، جو ویر بھدر سنگھ کی اہلیہ ہیں۔ ایسے میں ان کے بیٹے وکرم آدتیہ سنگھ کو کابینہ میں برقرار رکھنا ہی پارٹی اپنی سیاسی توازن کے نقط نظر سے کافی سمجھ رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ توازن برقرار رکھنے کے لیے ویر بھدر خیمے کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے، کیونکہ پارٹی کسی بھی قیمت پر 'آپریشن لوٹس' جیسا واقعہ دوبارہ ہونے نہیں دینا چاہتی۔
یہ آپریشن ناکام رہا تھا، اور اسی کے بعد کانگریس نے اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کرتے ہوئے وہی اسمبلی نشستیں دوبارہ جیت لیں۔ ایسے میں باغی اراکینِ اسمبلی کا انجام دیکھ کر اب ناراض کانگریسی اراکین اور وزراء سب محتاط ہو گئے ہیں۔ ویر بھدر خاندان کو بھی اس وقت عزت و احترام کی سخت ضرورت تھی، جسے ہائی کمان نے ویر بھدر سنگھ کے مجسمے کا افتتاح کر کے ایک طرح سے پارٹی کے 'اسٹیچو آف یونٹی' کی علامت کے طور پر پیش کر دیا۔
اب بات آتی ہے عاملہ اور تنظیم کی نئی ٹیم کی۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ 'لوئر' یعنی 'نیا ہماچل' ان اضلاع کے رہنماؤں کی وفاداری کے پیمانے پر پوری طرح کھرا نہیں اتر رہا ہے۔ حال ہی میں جو بغاوت ہوئی، وہ کانگڑا اور ہمیرپور کے اراکینِ اسمبلی کی جانب سے کی گئی تھی۔ وہیں پارٹی صدر پربھا سنگھ کے منڈی ضلع میں کانگریس کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں سرکاگھاٹ نشست کو چھوڑ کر کانگریس کے پاس کوئی بھی نشست نہیں بچی۔ اس لیے نئے صدر کا انتخاب شملہ پارلیمانی حلقے سے کیے جانے کا امکان زیادہ مانا جا رہا ہے۔
توازن اور تنظیم کی مضبوطی کے لحاظ سے کلدیپ راٹھور اور روہت ٹھاکر یہ دو نام مضبوطی سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو کانگریس نے اقتدار اور تنظیم دونوں میں ہماچل میں ہمیشہ چیک اینڈ بیلنس برقرار رکھا ہے۔ یہ ضروری نہیں رہا کہ جو وزیراعلی ہو، اسی گروہ سے پارٹی صدر بھی ہو۔ اس بار بھی تقریبا ویسی ہی صورتِ حال بنی ہوئی ہے۔ جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی میں صوبائی صدر ویشیہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ قومی صدر برہمن ہیں، اسی طرح کی پالیسی تبدیلی اب کانگریس میں بھی دکھائی دینے لگی ہے۔
ڈاکٹر رچنا گپتا