نیشنل ڈیسک: ایودھیا کی ہوا ان دنوں خاص ہے۔ صندل اور عرق گلاب کی خوشبو سے فضا میں ایک خاص جوش ہے، جیسے پورا شہر کسی عظیم الشان ہونے کا انتظار کر رہا ہو۔ جمعرات کو رام مندر کی پہلی منزل پر رام دربار کی مورتیوں کے تقدس کے ساتھ ساتھ مندر کے احاطے میں چھ دیگر مندروں میں بھی پوجا اور تقدیس کی رسومات مکمل ہوئیں۔ یہ صرف ایک مذہبی رسم نہیں تھی، بلکہ ہندوستان کی روح اور اس کی جدید امنگوں کے درمیان ایک نیا پل بنتا ہوا دیکھا گیا تھا۔
صدیوں کے انتظار کی علامت
رام مندر کوئی عام عمارت نہیں ہے۔ یہ ان گنت نسلوں کے انتظار، تپسیا اور قربانی کی علامت ہے جنہوں نے بھگوان شری رام کے مندر کے لیے برسوں سے دعا ئیںکیں۔ جہاں یہ جگہ کبھی تنازعات اور تنازعات کا مرکز تھی، آج وہاں ایک عظیم الشان مندر بڑی شان سے اور پرامن طور پر کھڑا ہے، جو ریت ، پتھر اور سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے، جس کے سنہری کلش آسمان کو چھیدتے نظر آتے ہیں۔ اس مندر کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا تعمیراتی کام ہے جو غیر معمولی رفتار سے مکمل ہوا تھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے 2019 میں رام جنم بھومی پر مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کرنے کے بعد، یہ عظیم الشان تعمیر تقریباً پانچ سال میں مکمل ہو گئی تھی۔ یہ ہندوستان کے اتحاد اور اجتماعی ارادے کی زندہ مثال ہے۔

وزیر اعظم مودی کا فیصلہ کن کردار
اس تیز رفتار تعمیر کا سہرا کافی حد تک وزیر اعظم نریندر مودی کو جاتا ہے۔ انہوں نے اسے صرف ایک تعمیراتی منصوبے کے طور پر نہیں بلکہ قوم کے عزم کے طور پر دیکھا۔ اس کام کی نگرانی کے لیے، اس نے اپنے سابق پرنسپل سکریٹری نریپیندر مشرا کو، جو اپنی کارکردگی اور پالیسی کی وضاحت کے لیے جانا جاتا ہے، کو شری رام جنم بھومی تیرتھ کھیتر ٹرسٹ کا سربراہ مقرر کیا۔ ملک بھر سے کاریگروں نے روایتی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے مندر کی تعمیر میں حصہ لیا۔ وزیر اعظم نے فنڈنگ سے لے کر انتظامی رکاوٹوں کو دور کرنے تک ہر پہلو پر گہری نظر رکھی۔ انہوں نے پیغام دیا کہ یہ صرف ایک مندر نہیں ہے، بلکہ ہندوستان کے وقار کا سوال ہے اور اس میں کوئی سستی نہیں برتی جائے گی۔
ہندوستان کے ثقافتی شعور کا عکس
رام مندر ہندوستان کے بدلتے ثقافتی شعور کی علامت بن گیا ہے۔ ایک عرصے سے ہندوستان کے کچھ نام نہاد دانشور مذہبی عقیدے کو تنگ نظری اور پسماندگی سے جوڑت کردیکھتے ہیں لیکن رام مندر ان کا بھرم توڑ دیتا ہے۔ یہ مندر جدیدیت کو مسترد نہیں کرتا، بلکہ سناتن روایت کے ساتھ توازن قائم کرکے ایک نئی ثقافتی شناخت بناتا ہے۔

ایک مندر، بہت سے دیوی دیوتاوں کا گھر
رام مندر کمپلیکس نہ صرف بھگوان رام کا گھر ہے بلکہ شیو، ہنومان، گنپتی، سوریہ دیو، ماتا بھگوتی، انپورنا اور شیشاوتار جیسے دیگر دیوتاو¿ں اور دیویوں کا بھی گھر ہے۔ یہ سناتن دھرم کے تنوع اور جامعیت کی زندہ مثال ہے۔ اس میں ہر ذات، ہر برادری اور ہر نظریے کے لوگوں کے لیے جگہ ہے۔
مذہب اور سیاست: نیا سیاسی ہندو بیدار ہو گیا ہے۔
رام مندر تحریک ہمیشہ صرف مذہبی نہیں تھی بلکہ یہ بہت سیاسی تھی۔ یہ مندر ہندوستان کی تہذیب کے اس جذبے کی علامت ہے جو صدیوں سے ناانصافی کے خلاف لڑتی رہی ہے۔ بابر کے ذریعہ مندر کی تباہی ایک واضح ادھرم تھا، اور اس کی تعمیر نو دھرم کی بحالی ہے۔ رام مندر کی تعمیر 'سیاسی ہندو' کی بیداری کی علامت بن گئی ہے، ایک ہندو جو اب ووٹ بینک کی سیاست میں نظر انداز نہیں ہونا چاہتا، جسے اب ہندوستان کی قدیم ثقافت پر فخر ہے، اور وہ مغربی 'سیکولرازم' کے تصورات سے آنکھیں بند کرکے متاثر نہیں ہے۔
مودی کی میراث اور ہندوستان کی عزت نفس
رام مندر وزیر اعظم نریندر مودی کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ انہوں نے تاریخی مصائب کے اس مقام کو اتحاد اور وقار کی علامت بنایا۔ ان کی قیادت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہندوستان اپنی روایات کا احترام کرتے ہوئے اعتماد کے ساتھ جدیدیت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

اجتماعی کوشش کی ایک مثال
اس مندر کی تعمیر کسی ایک شخص یا حکومت کا کام نہیں تھا۔ اس میں کاریگروں، انجینئروں، مقامی تاجروں، کسانوں اور ملک اور دنیا کے کروڑوں لوگوں کا تعاون ہے۔ یہ شاندار مندر لاکھوں عقیدت مندوں کے عطیات سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا ڈھانچہ ہے جو ماضی اور حال کی کہانی ایک ساتھ بیان کرتا ہے۔
رام مندر اب صرف ایودھیا میں نہیں ہے، یہ ہندوستان کے ہر دل میں دھڑک رہا ہے، ایمان، خود اعتمادی اور مشترکہ مستقبل کے عزم کی علامت کے طور پرہے۔