انٹرنیشنل ڈیسک: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے سی ای او ایلون مسک کے درمیان حالیہ کشیدگی نے سیاسی اور کاروباری حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ ٹرمپ نے جمعرات کو مسک کو وارننگ دی کہ اگر وہ حکومتی سبسڈیز اور معاہدوں میں کمی کرتے رہے تو ان کی کمپنیوں کے سرکاری معاہدے ختم کیے جا سکتے ہیں۔
مسک کی تنقید اور ٹرمپ کا ردعمل
مسک نے حال ہی میں ریپبلکن پارٹی کی طرف سے متعارف کرائے گئے 'ایک بڑا خوبصورت بل ایکٹ' پر تنقید کی، جس میں الیکٹرک گاڑیوں (ای وی) اور شمسی توانائی کے لیے ٹیکس کریڈٹ ختم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ انہوں نے اس بل کو قومی خسارے میں اضافہ اور ماحولیاتی پالیسیوں کے خلاف قرار دیا۔ ٹرمپ نے مسک کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے انہیں 'ٹرمپ ڈیرینجمنٹ سنڈروم' کا شکار قرار دیا اور حکومتی معاہدوں کو کم کرنے کی دھمکی دی۔ مسک نے پھر عوامی طور پر ٹرمپ پر حملہ کیا اور کہا کہ ٹرمپ کی دوبارہ انتخاب میں کامیابی ان کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
SpaceX کا فیصلہ اور مارکیٹ پر اثر
تنازعہ کے نتیجے میں، SpaceX نے اپنے ڈریگن خلائی جہاز کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام حکومتی معاہدوں میں ممکنہ کٹوتیوں کی روشنی میں سامنے آیا ہے، جس سے امریکی خلائی تحقیق اور تجارتی خلائی پروازوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تنازعہ کا ایک اور نتیجہ ٹیسلا کے حصص میں 14 فیصد کمی اور کمپنی کی قیمت میں 267 بلین ڈالر کی کمی آئی ہے۔
سیاسی اور کاروباری نقطہ نظر
مسک، جو 2024 کے انتخابات میں ٹرمپ کے لیے ایک بڑا ڈونر تھا، نے حال ہی میں سیاسی اخراجات میں کمی کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ انہیں ٹرمپ کی انتظامیہ میں اپنے کردار کے بارے میں بھی سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر جب ٹرمپ نے مسک کے اتحادی جیرڈ آئزاک مین کو ناسا کے سربراہ کے طور پر نامزد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پیشرفت ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح ذاتی اختلافات اور پالیسی کے اختلاف کی وجہ سے کاروباری تعاون اور سیاسی تعاون تبدیل ہو سکتاہے۔