انٹرنیشنل ڈیسک: یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے منگل کے روز کہا کہ روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کو امریکی سرزمین پر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے لیے مدعو کرکے "ذاتی فتح" حاصل ہوئی ہے اور اس ملاقات سے ماسکو پر پابندیوں میں مزید تاخیر ہوگی ۔
زیلنسکی نے امن معاہدے کے تحت یوکرین کے مشرقی ڈونباس علاقے سے فوجیوں کی واپسی کے امکان کو بھی مسترد کر دیا، کیوں کہ ٹرمپ نے مشورہ دیا تھا کہ وہ اور پوتن جنگ کے خاتمے کے لیے زمینی تبادلے پر بات چیت کر سکتے ہیں۔
جمعے کو الاسکا میں ہونے والی سربراہی ملاقات 2021 کے بعد کسی بھی موجودہ امریکی اور روسی صدر کے درمیان پہلی ہو گی اور یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ٹرمپ یوکرین پر روس کے تقریبا ساڑھے تین سال کے حملے کے خاتمے کے لیے ثالثی کرنا چاہتے ہیں۔
زیلنسکی، جن کے اس ملاقات میں شرکت کا پروگرام نہیں ہے ، نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس سخت مطالبات کرے گا اور ٹرمپ ایک ایسا معاہدہ کریں گے جو یوکرین کو اپنی سرزمین کا ایک بڑا حصہ چھوڑنے پر مجبور کر دے گا۔
زیلنسکی نے میڈیا کو بتایا کہ "ہم ڈنباس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے... اگر ہم آج ڈنباس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں - ہماری قلعہ بندی، ہمارا علاقہ ، جن بلندیوں پر ہم کنٹرول کرتے ہیں - تو ہم روسیوں کے لیے حملے کی تیاری کا راستہ کھول دیں گے۔ ڈنباس میں مشرقی یوکرینی علاقے لوہانسک اور ڈونیٹسک شامل ہیں، جن دونوں پر روس اپنا دعوی کرتا ہے اور 2022 میں اپنے حملے کے آغاز سے ہی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ زیلنسکی نے کہا کہ جمعے کا سربراہی اجلاس روس پر نئی امریکی پابندیوں کو مؤثر طریقے سے ملتوی کر دے گا - وہ پابندیاں جو ٹرمپ نے پوتن کے جنگ روکنے سے انکار کرنے پر لگانے کا وعدہ کیا تھا۔
زیلنسکی نے کہا کہ سب سے پہلے ، وہ امریکی سرزمین پر ملاقات کریں گے، جسے میں ان کی ذاتی فتح سمجھتا ہوں۔ دوسرا، علیحدگی سے باہر آرہے ہیں، کیونکہ وہ امریکی سرزمین پر ملاقات کر رہے ہیں ۔ تیسرا، اس ملاقات کے ساتھ، انہوںنے پابندیوں کو کسی نہ کسی طرح ملتوی کر دیا ہے۔ زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ انہیں امریکی ایلچی اسٹیو وٹ کوف کی طرف سے ایک "اشارہ" ملا ہے کہ روس جنگ بندی پر راضی ہو سکتا ہے، حالانکہ انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ زیلنسکی نے کہا کہ یہ ان کی طرف سے پہلا اشارہ تھا۔