نیشنل ڈیسک: 13 جون 2025 کو جو کچھ بھی ہوا وہ اب صرف حملہ نہیں ہے بلکہ اس بات کا سنگین اشارہ ہے کہ مشرق وسطی ایک اور بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل نے 'آپریشن رائزنگ لاین' کا آغاز کیا اور ایران کے کئی اہم مقامات پر حملہ کیا۔ اس حملے کو اس لیے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ اس میں جوہری تنصیبات، میزائل فیکٹریاں اور اعلی فوجی افسران براہ راست نشانے پر تھے۔
اس سارے واقعے نے پوری دنیا کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ، جو اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے، اس حملے سے خود کو الگ کر چکا ہے لیکن صورتحال سے نمٹنے کے لیے سرگرمی سے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہیں ، ایران نے اس کا جواب دینے کی وارننگ دی ہے ہے۔
آپریشن رائزنگ لائن کیا ہے؟
- 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر 'آپریشن رائزنگ لائن' کے نام سے بڑا فضائی حملہ کیا۔
- اسرائیل کے درجنوں لڑاکا طیارے ایران میں داخل ہوئے اور تہران اور نانج میں یورینیم کی افزودگی کے مراکز، میزائل مینوفیکچرنگ یونٹس اور
- فوجی کمانڈ سینٹرز پر بمباری کی۔
اس آپریشن کے تحت بعض اعلی ایرانی اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ایرانی فوج کے سربراہ محمد باقری اور کئی جوہری سائنسدانوں کی ہلاکت کی تصدیق اسرائیلی میڈیا نے کی ہے، اگرچہ ایران نے سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی۔
کشیدگی کیوں بڑھی؟
- اس حملے کے پیچھے گزشتہ چند مہینوں سے جاری سرگرمیاں اور تنازعات ہیں۔
- اسرائیل کا دعوی ہے کہ ایران نے اتنا افزودہ یورینیم جمع کر لیا ہے کہ وہ چند دنوں میں 15 ایٹمی بم بنا سکتا ہے۔
- ایران نے ہمیشہ یہ دعوی کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے لیکن اسرائیل اور مغربی ممالک اسے ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
- گزشتہ چند مہینوں میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر کئی سائبر حملے، میزائل حملے اور قاتلانہ حملے کیے ہیں۔
امریکہ کا کردار کیا ہے؟
- امریکہ نے اس حملے میں براہ راست فوجی شراکت دادی کی تردید کی ہے۔
- امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ یہ حملہ اسرائیل کی یکطرفہ کارروائی ہے اور امریکہ صرف اپنی فوج کی حفاظت پر توجہ دے رہا ہے۔
- لیکن سچ یہ ہے کہ امریکہ سفارتی دباؤ ، علاقائی فوجی تعیناتی اور خفیہ حمایت کے ذریعے صورتحال میں گہرائی سے شامل ہے۔
- ٹرمپ نے حملے سے ایک روز قبل بھی کہا تھا کہ حملہ ممکن ہے تاہم انہوں نے پرامن حل کی امید ظاہر کی تھی۔
اب تک کیسے پہنچا معاملہ؟(ایک نظر میں ٹائم لائن)
7 اکتوبر 2023: ایران کی حمایت یافتہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا جس میں 1100 افراد ہلاک ہوئے۔
یکم اپریل 2024: اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا۔
13 اپریل 2024: ایران نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے 300 ڈرون اور میزائل داغے۔
19 اپریل 2024: اسرائیل نے جوابی کارروائی کی۔
31 جولائی 2024: حماس کے رہنما ہنیہ کو تہران میں قتل کر دیا گیا۔
یکم اکتوبر 2024: ایران نے اسرائیل پر 200 بیلسٹک میزائل داغے۔
13 جون 2025: اسرائیل نے آپریشن رائزنگ لائن کا آغاز کیا۔
اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟
اب سب کی نظریں ایران پر ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایران براہ راست جواب دے سکتا ہے۔
- براہ راست میزائل حملے
- حزب اللہ یا حماس جیسے پراکسی گروپوں کے ذریعے حملے
- سائبر حملہ
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تنازع پورے مشرق وسطی کو جنگ کی آگ میں جھونک دے۔ امریکہ ایران جوہری مذاکرات، جو 15 جون کو عمان میں ہونے والے تھے، اب تعطل کا شکار ہیں۔
اسرائیل ایران تنازعہ دراصل کیا ہے؟
- یہ صرف دو ملکوں کے درمیان تنازعہ نہیں ہے بلکہ نظریے، سلامتی اور طاقت کے لیے جدوجہد کی کہانی ہے۔
- اسرائیل کو خدشہ ہے کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو یہ یہودی ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
- دوسری طرف ایران اسرائیل کو ایک غیر قانونی اور ناجائز ریاست سمجھتا ہے اور اس کے خلاف پراکسی فورسز کھڑی کر دی ہیں۔
کیا سفارتکاری اب بھی کچھ کر سکتی ہے؟
- صورتحال بہت نازک ہے۔ دونوں فریقوں نے اب براہ راست حملوں کا سہارا لیا ہے۔ ایسی صورت حال میں صرف ایک چنگاری پورے علاقے کو جنگ کے آتش فشاں میں تبدیل کر سکتی ہے۔
- اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین جیسے ممالک کو اب پرامن حل کے لیے کھل کر آگے آنا ہو گا۔
- ورنہ اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ محض آغاز ہو سکتا ہے۔