National News

یوکرین کے لیے ٹرمپ کا نیا کھیل: کہا-پوتن ایسے نہیں مانیں گے، روس کے خلاف کیا شاکنگ اعلان

یوکرین کے لیے ٹرمپ کا نیا کھیل: کہا-پوتن ایسے نہیں مانیں گے، روس کے خلاف کیا شاکنگ اعلان

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے روس کی دو سب سے بڑی تیل کمپنیوں روسنیفٹ اور لوک اوئل پر "بھاری" نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس کا مقصد صدر ولادی میر پوتن پر دباو ڈالنا ہے تاکہ وہ یوکرین میں جنگ کو ختم کریں۔ امریکی خزانہ سیکرٹری اسکاٹ بیسنٹ کے مطابق، یہ کمپنیاں کریملن کی "جنگی مشین" کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں۔ بیسنٹ نے کہاصدر پوتن کی اس بیکار جنگ کو ختم کرنے سے انکار کی وجہ سے، خزانہ روس کی دو سب سے بڑی تیل کمپنیوں پر پابندیاں لگا رہا ہے، جو کریملن کی جنگی مشین کو فنڈ کرتی ہیں۔
یہ پابندیاں برطانیہ کی طرف سے روسنیفٹ اور لوک اوئل پر پابندیاں لگانے کے ایک ہفتے بعد لگائی گئی ہیں۔ یورپی یونین نے روس کے خلاف 19ویں پیکیج کے تحت روسی ایل این جی کی درآمد پر بھی پابندی لگائی ہے۔ امریکہ نے جاپان سے بھی روس سے توانائی کی درآمد روکنے کی درخواست کی ہے۔ روس کی معیشت پر یہ پابندیاں گہرا اثر ڈال سکتی ہیں کیونکہ تیل اور گیس کے شعبے سے حاصل ہونے والے ٹیکسز روس کے وفاقی بجٹ کا تقریباً 25 فیصد حصہ ہیں۔ عالمی سطح پر بھی اس کا اثر محسوس کیا جا سکتا ہے، کیونکہ امریکہ روس سے خام تیل کی فراہمی کم کرنے کے لیے دباو بڑھا رہا ہے۔ روس کا اہم توانائی برآمد کنندہ چین اور بھارت ہیں۔
گزشتہ سال چین نے روس سے 100 ملین ٹن سے زیادہ خام تیل خریدا، جو بیجنگ کی کل توانائی درآمدات کا تقریباً 20 فیصد تھا۔ جبکہ بھارت 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سب سے بڑا رعایتی روسی تیل خریدار بن گیا، اور اس سال کے پہلے نو مہینوں میں تقریباً 1.7 ملین بیرل فی دن درآمد کیا۔ اس کے جواب میں امریکہ نے بھارت سے درآمد شدہ اشیاءپر 25 فیصد سزاوارانہ ٹیکس لگا دیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں یقین دلایا ہے کہ دہلی زیادہ تیل روس سے نہیں خریدے گااور جنگ کے خاتمے کے حق میں ہے۔
بھارت نے کہا کہ اس کا بنیادی مقصد اپنے صارفین کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ سابق امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر اہلکار ایڈورڈ فش مین نے کہا کہ نئی پابندیوں کی اہمیت اس بات پر منحصر ہوگی کہ امریکہ آگے کیا اقدامات کرتا ہے۔ انہوں نے کہاا امریکہ روس کے تیل پر طویل المدتی دباو برقرار رکھے گا یا نہیں، یہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ وہ فعال اور مسلسل نفاذ کرتا ہے یا نہیں۔ رائٹرز کے مطابق، بھارتی سرکاری ریفائنریاں اپنا روسی تیل کے کاروبار کے معاہدوں کا جائزہ لے رہی ہیں تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ روس سے براہ راست روسنیفٹ اور لوک اوئل کا کوئی تیل نہ آئے۔ اس میں انڈین آئل کارپوریشن، بھارت پیٹرولیم کارپوریشن، ہندوستان پیٹرولیم کارپوریشن اور منگلور ریفائنری اینڈ پیٹرو کیمیکل شامل ہیں۔



Comments


Scroll to Top