Latest News

معروف  افسانہ نگار عبد العزیز انتقال کرگئے

معروف  افسانہ نگار عبد العزیز انتقال کرگئے

ممبئی : شہر ممبئی کے معروف افسانہ نگار عبد العزیز خان ۸۳ سال کی عمر میں ، آج مالک حقیقی سے جاملے مرحوم ادھر ایک لمبے عرصہ سے صاحب فراش تھے-  ان کی تدفین بڑا قبرستان ، مرین لائنز میں ہوئی ، تدفین میں مرحوم کے اہل خانہ، اعزاواقف کاروں کے ساتھ صحافتی و ادبی دنیا سے  صحافی شکیل رشید ، فرحان حنیف وارثی ، شاداب رشید اور سید ارشاد احسن سمیت دیگر افراد شریک تھے ۔
مرحوم کے پسماندگان میں بڑے بھائی عبدالحمید خان ، اور دو چھوٹے بھائی عبدالرشید خان وعبد الطیف خان اور ایک بہن ہیں ۔ عبد العزیز خان مرحوم نیک سیرت انسان تھے ، لوگوں کی مدد کرنے پر یقین رکھتے تھے ۔ اور اردو کے پکے شیدائی تھے۔ انگریزی میڈیم سے پڑھنے اور ہندی پر عبور رکھنے کے باوجود انھوں نے باقاعدہ اردو سیکھی اور اردو میں ہی کہانیاں لکھ کر شہرت حاصل کی ۔ 
اردو زبان کے ممبئی کے معروف افسانہ نگاروں انور خان ، ساجد رشید، علی امام نقوی ، مقدر حمید اورم ناگ کی صحبت نے انھیں افسانہ نگاری کی جانب مائل کیا تھا اور انتقال کے پہلے تک ان کے سات افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے تھے۔ وہ یک سطری کہانیوں کے موجد تھے، اس صنف پر ان کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں لیکن افسوس اردو دنیا ان کے اس کارنامے سے بہت کم واقف ہے! انھوں نے افسانے ، ناولٹ اور مختصر ترین افسانے بھی لکھے ۔ ان کی کہانیوں میں خاص بات بمبئی شہر تھا جو ہر سطر میں سانس لیتا محسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے بمبئی کی زندگی کو کافی قریب سے دیکھا تھا اور شہر کی باریک تفصیلات کو وہ اپنی کہانیوں میں بہت خوبصورتی سے پروتے تھے۔ 
موصوف بہت زیادہ مجلسی شخصیت نہیں تھے، زیادہ لوگوں سے ملتے جلتے نہیں تھے اس لیے ان کی تخلیقات پر بہت زیادہ بات بھی نہیں ہوئی۔ وہ اپنے افسانوں کو ہمیشہ کہانیاں کہتے تھے ، انھوں نے بطور خاص بجو کا کے موضوع پر کئی کہانیاں لکھ کر اپنی ایک الگ پہچان بنائی ، ایک اور بجوکا ، بجوکا بن گیا چور، اور بجو کا نگا ہو گیا وغیرہ۔ انور خان نے عزیز خان پر ایک کہانی کہانیوں کا شکاری کے عنوان سے لکھی ہے۔ 
مرحوم عزیز خان  کو پرانے ڈاک ٹکٹ ، سکے ، نوٹ اور نوادرات جمع کرنے کا کافی شوق اور اس تعلق سے انہیں بڑی جانکاری تھی ۔ ڈاک کے لفافے اور پوسٹ کارڈ جمع کرنے پر انہیں انعام بھی مل چکا تھا۔ چند سال پہلے ٹائمز آف انڈیا نے پوسٹ کارڈ پر بھی کہانیوں کا مقابلہ کیا تھا جس میں مرحوم کو دوسرا انعام ملا تھا ، جس کے بعد انھوں نے پوسٹ کارڈ کہانیوں کا ایک مجموعہ دیکھ کبیر رویا' کے عنوان سے شائع کیا تھا۔وہ محکمہ ڈاک سے سبکدوش ہوئے تھے۔



Comments


Scroll to Top