جموں:جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو کہا کہ دہلی میں ہوئے خوفناک دھماکے کے مجرموں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے، تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ پوری کشمیری آبادی کو دہشت گردی سے جوڑنا سراسر غلط ہوگا عمر عبداللہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے کے ذمے دار چند لوگ ہیں۔ جو قصوروار ہیں انہیں سخت ترین سزا دی جائے، لیکن بے گناہوں کو اس کی زد میں نہیں آنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ معصوم شہریوں کا اس طرح بے دردی سے قتل انتہائی شرمناک اور قابلِ مذمت ہے۔ اس قسم کے عمل کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ تحقیقات جاری ہیں اور حقائق سامنے آئیں گے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب 10 نومبر کو دہلی کے لال قلعہ کے قریب ایک بارود سے بھری کار کے دھماکے میں 12 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ گاڑی ڈاکٹر عمر نبی چلا رہا تھا جو جنوبی کشمیر کے پلوامہ سے تعلق رکھتا ہے۔ تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ ایک وسیع دہشت گرد نیٹ ورک کا اہم رکن تھا جس کے رابطے کشمیر، ہریانہ اور اتر پردیش تک پھیلے ہوئے ہیں۔
اسی روز فریدآباد میں ایک اور کشمیری ڈاکٹر مزمل گنائی کے کرایہ کے مکان سے تقریباً 360 کلو امونیم نائٹریٹ، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا۔ پولیس نے مزمل سمیت آٹھ افراد ،جن میں سات کشمیری شامل ہیں ، کو 'وائٹ کالر' جیشِ محمد دہشت گرد ماڈیول کے تعلق میں گرفتار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ چند عناصر ہی امن و امان کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں اور ان کی وجہ سے پوری آبادی کو بدنام کرنا درست نہیں۔
انہوں نے کہا، 'جموں و کشمیر کا ہر باشندہ دہشت گرد نہیں۔ ہر کشمیری دہشت گردوں کے ساتھ نہیں ہے۔ صرف چند لوگ ہیں جو یہاں کے امن اور ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'
عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ جب ہم ہر کشمیری مسلمان کو ایک ہی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں اور یہ تاثر دینے لگتے ہیں کہ ہر کشمیری مسلمان دہشت گرد ہے، تو حالات کو درست سمت میں رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گرد حملے کے ذمہ داروں کو عدالتی عمل کے ذریعے سخت ترین سزا دی جائے، مگر کسی بے گناہ کو ہراساں نہ کیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ڈاکٹر نثار ڈار کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے خلاف شواہد موجود تھے تو کارروائی پہلے کیوں نہیں کی گئی؟ صرف ملازمت سے برطرفی سے مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔ اگر واقعی ثبوت تھے تو عدالت میں کیوں نہیں پیش کیے گئے؟
واضح رہے کہ ڈاکٹر نثار، جو سرینگر کے نوگام کے رہنے والے اور ایس ایم ایچ ایس اسپتال میں ڈاکٹر تھے ، کو 2023 میں مبینہ دہشت گرد روابط کے الزام میں برطرف کیا گیا تھا اور اب وہ بھی فریدآباد دہشت گرد ماڈیول کے سلسلے میں گرفتار آٹھ افراد میں شامل ہیں۔