نیشنل ڈیسک: امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان -امریکہ تجارتی مذاکرات کو لے کر بڑا بیان دیا ہے۔ ٹرمپ نے منگل کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ کے ذریعے یقین ظاہر کیا کہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان طویل عرصے سے جاری تجارتی بات چیت اب مثبت نتائج کی طرف بڑھ رہی ہے۔
مودی میرے اچھے دوست، جلد ہوگی بات چیت : ٹرمپ
اپنی پوسٹ میں ٹرمپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو "بہت اچھا دوست" بتاتے ہوئے کہا کہ وہ آنے والے ہفتوں میں ان سے براہ راست بات چیت کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔ ٹرمپ نے لکھا: مجھے خوشی ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تجارت سے جڑی رکاوٹوں کو ہٹانے پر لگاتار گفتگو ہو رہی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند معاہدہ جلد سامنے آئے گا۔
دونوں ممالک کے درمیان 'خصوصی کیمسٹری' پر پھر زور
ٹرمپ نے یہ بھی واضح کیا کہ ہندوستان -امریکہ تعلقات ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں، اور انہوں نے مودی کے ساتھ اپنے ذاتی رشتے کو بھی ایک خاص طاقت بتایا۔ انہوں نے کہا: میں ہمیشہ وزیر اعظم مودی کا دوست رہا ہوں اور رہوں گا۔ وہ ایک شاندار رہنما ہیں۔ کبھی کبھی ہمارے درمیان کچھ مسائل پر اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن اس سے ہماری دوستی یا دونوں ممالک کے رشتوں کی بنیاد نہیں ہلتی۔

وزیر اعظم مودی کا عاجزانہ جواب: 'میں قدردانی کرتا ہوں'
ٹرمپ کی اس تبصرہ کے بعد ہندوستان کی طرف سے بھی مثبت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ وہ ٹرمپ کی دوستی اور تعاون کو پوری طرح قبول کرتے ہیں اور بھارت-امریکہ تعلقات کو مزید بلندیوں تک لے جانے کے لیے پرعزم ہیں۔ "صدر ٹرمپ کے جذبات اور ہمارے تعلقات کے تئیں ان کے مثبت نظریے کی میں گہرائی سے قدردانی کرتا ہوں۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان شراکت داری صرف تزویراتی (اسٹریٹجک)نہیں، بلکہ عالمی نظریے سے بھی بے حد اہم ہے۔
کیا ہے تنازع کی جڑ؟
حالیہ مہینوں میں بھارت اور امریکہ کے درمیان ٹیرف، الیکٹرانک اشیا پر ڈیوٹی، فارما ایکسپورٹس، اور ڈیجیٹل تجارت کو لے کر اختلافات سامنے آئے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان اپنی منڈی کو امریکی کمپنیوں کے لیے مزید کھولے، جبکہ بھارت اپنی گھریلو پالیسی اور کسانوں کے مفادات کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر مودی اور ٹرمپ کے درمیان براہ راست بات چیت ہوتی ہے، تو کئی رکے ہوئے مسائل پر پیش رفت ممکن ہے۔ خاص طور پر اگر ٹرمپ دوبارہ صدر کے عہدے پر واپسی کرتے ہیں، تو ان کے پرانے تجربے اور ذاتی ہم آہنگی کا اثر تجارتی معاہدوں پر صاف نظر آ سکتا ہے۔