Latest News

نسل کشی کے دہانے پر غزہ! 48 گھنٹے میں 14 ہزار بچوں کی موت کا خطرہ

نسل کشی کے دہانے پر غزہ! 48 گھنٹے میں 14 ہزار بچوں کی موت کا خطرہ

انٹرنیشنل ڈیسک: غزہ کی پٹی میں حالات ہر گھنٹے بگڑتے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے وارننگ دی ہے کہ اگر آئندہ 48 گھنٹوں میں انسانی امداد فراہم نہ کی گئی تو تقریبا 14 ہزار بچوں ی جان جا سکتی ہے ۔  مارچ 2025 سے اسرائیل کی طرف سے پوری ناکہ بندی نے غزہ کو بھکمری اور غذائی قلت  کی آگ میں دھکیل دیا ہے ۔ مارچ میں اسرائیلی حکومت نے غزہ کو خوراک، پانی اور ایندھن کی سپلائی مکمل طور پر منقطع کر دی۔ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے حال ہی میں کچھ امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن جہاں غزہ کو روزانہ 500 ٹرکوں کی ضرورت ہے، وہاں صرف 5 سے 10 ٹرک بھیجے جا رہے ہیں۔
سب سے زیادہ اثر بچوں پر 
غزہ حکومت کے مطابق تقریباً 3 لاکھ بچے غذائی قلت کے دہانے پر ہیں جبکہ 11 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہر پانچواں بالغ بھی بھوکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف 'بھوک' نہیں بلکہ تین مرحلوں کی بھکمری ہے جس میں جسم آہستہ آہستہ پٹھوں اور ہڈیوں کو کھا کر زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
 کھلی جیل میں تبدیل ہوا غزہ
غزہ ایک 40 کلومیٹر طویل علاقہ ہے، جس میں فی مربع کلومیٹر تقریبا 6000 افراد آباد ہیں۔ 2007 میں حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اسرائیل اور مصر نے اس علاقے کی سرحدوں کو سیل کر دیا ہے، جسے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ' اوپن ایئر پریزن ' (کھلی جیل ) قرار دیا ہے ۔ 
کیا اقوام متحدہ اور آئی سی جے صرف وارننگ دیں گے ؟
اس خوفناک انسانی بحران کے درمیان سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے)اس صورتحال میں وارننگ جاری رکھے گی یا جنگی جرائم پر اسرائیل کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرے گی؟ اب تک اس تنازعے کے نتیجے میں اسرائیل میں 1,726 اور غزہ میں 57,000 سے زائد اموات ہو چکی ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
بین الاقوامی قانون 
آبادی کو جان بوجھ کر خوراک، پانی اور ادویات سے محروم کرنا بین الاقوامی قانون کے تحت 'جنگی جرم' ہے۔ اس کے باوجود آئی سی جے اور اقوام متحدہ جیسی تنظیموں کے اقدامات محض اپیل اور انتباہات تک محدود نظر آتے ہیں۔ غزہ میں انسانی المیہ اب تشویشناک حد سے آگے بڑھ چکا ہے۔ بچوں کی بھوک سے اموات، بند سرحدیں اور ناکافی امداد سب مل کر انسانیت کو شرمندہ کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی بڑی طاقتیں صرف رپورٹیں پڑھتی رہیں گی یا کچھ کریں گی بھی؟
 



Comments


Scroll to Top