بھا جیا صدر کے دو کار میں توسیع کا فارمولہ، پارٹی کاایسا سوچا سمجھا فیصلہ ہے، جسے ایک دہائی میں دو قلعے فتح کرنے کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ پہلا، بھگو انتخابی سلطنت ماڈل کو وسعت دینا اور دوسرا اتنظیم کے استحکام کے ساتھ اتحاد کی صورت میں ان علاقوں کا پھیلاؤ کرنا جہاں بھاجپا کی موجودگی ہی نہیں ہے۔
بہار کی جیت کا نیا ماڈل اس کی تازہ مثال ہے۔ قریب 45 برس کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے کل دورِ کار میں، گزشتہ ایک دہائی میں جیسے سماجی بنیاد کو سیاسی استحکام نے بھاجپا کو دو حصوں میں بانٹ دیا 'پرانی بھاجپا اور نئی بھاجپا ' ۔
نئی بھاجپا کا دور راجناتھ سنگھ، امت شاہ اور جے پی نڈا کے دورِ کار کو مانا جا سکتا ہے۔ بھاجپا کا نیا روپ اور نئی حکمت عملی کو سمجھنا بہار انتخابات کے بعد اس لئے اہم ہو جاتا ہے، جب اس کے بعد بھاجپا کا اگلا نشانہ مغربی بنگال اور ساتھ کی ریاستوں میں انتخابات ہے۔
پس منظر میں بتا دیں کہ 16 اپریل 1980 کو بھاجپا کے جنم کے بعد ، امت شاہ پارٹی کے 14 ویں قومی صدر بنے۔ اس سے پہلے راجناتھ کے رہتے ہی نریندر مودی پہلی بار پردھان منتری بنے، پھر پارٹی کی کمان امت شاہ نے سنبھال لی۔ایسا نہیں کہ بھاجپا کے صدورِ کا دور کار صرف 3 سال تک محدود رہا ۔ ایڈوانی 6 برس تک صدر رہے، پھر دوبارہ تقریبا دو سال رہے۔ راجناتھ دو بار صدر رہے اور تقریبا 5 سال کام دیکھا۔
لیکن شاہ سے پہلے تک کی بھاجپا نظریاتی ، کیڈر سے چلنے والی اور محدود جغرافیائی اثر والی تھی ۔ مثلا 2013 میں بھا جیا صرف 5 ریاستوں(گٹھ بندھن سمیت ) تک محدود تھی ۔ 2009 میں تو پارٹی کا ووٹ شیئر محض 18.6 فیصد تھا اور لوک سبھا میں صرف 116 سیٹیں۔ لیکن شاہ کے آنے سے لے کر نڈا کے دور کے 11 برسوں کی مدت میں بھاجپا کا سوروپ پوری طرح تبدیل ہو گیا۔ اس سے پہلے انتخابی اتحاد محدود تھا۔ آر ایس ایس کیڈر پر مبنی پارٹی تھی۔ ایودھیا، سودیشی اور نظم وضبط کے مسائل سے آگے نہیں بڑھی تھی۔
تب کی بھاجپا اور آج کی بھاجپا کو شاہ کے وقت میں پوری طرح بدلا گیا اور اسے آگے بڑھایا نڈا نے ۔ لیکن اس نئی بھاجپا کے شاہ اور نڈا کے دور کار میں بھی تقابلی کار کردگی میں فرق رہا۔ لیکن پارٹی کا اب تک کا سب سے طاقتور دور امت شاہ کا رہا۔
جس میں پارٹی کی انتخابی سلطنت میں سب سے تیز رفتار پھیلا ہوا۔ بھاجپا نے 'شاہی دھمک 'کے ساتھ ملک میں بھگوا لہرایا۔ 2014 کی لوک سبھا میں پارٹی 282 سیٹوں پر تھی ، پھر 2019 میں 303 سیٹوں پر آگئی ۔ جب کہ این ڈی اے سمیت 350 پار کر گئی ۔
یہ عام بات نہیں تھی۔ شاہ کے دور میں بھاجپا 2014 میں 7 ریاستوں سے بڑھ کر 2020 میں 19 ریاستوں تک آگئی۔ ان میں یوپی میں (2017 میں ) اب تک کی سب سے بڑی جیت 312 سیٹوں کے ساتھ بھاجپا آئی، تو 2016 میں آسام میں پہلی بار پارٹی نے حکومت بنائی۔
پھر 2018 میں تریپورہ میں لیفٹ کی 25 سال پرانی حکومت ہٹا دی۔ یہ پرانی بھاجپا نہیں کر پائی تھی ۔ شاہ کی صدارت میں بھا جیا نے اپنی ہاروں سے بہت کچھ سیکھا اور پھر حکمت عملی بدل دی ۔2015-2020 میں دہلی ہاری، پنجاب ہارا، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے بڑے جھٹکے بھی لگے۔ لیکن پھر بھاجپا نے قومی اور ریاستی پھیلاؤ کی تیز رفتاری سے حکمت عملی بدل لی۔
2020 میں نڈا کے دورِ کار میں کو وڈ کے چیلنجوں کے درمیان پارٹی کی سیاسی طاقت مخلوط ہو گئی۔ خاص طور پر تب جب 2024 میں لوک سبھا میں بھاجپا 63 سیٹیں نیچے آ گئی۔ یہاں سے پارٹی کا پرانا راستہ نکلا گٹھ بندھن کا۔ لوک سبھا کا اتحاد، ریاستوں پر حاوی ہو گیا۔ مغربی بنگال، ہماچل، کرناٹک اور مہاراشٹر میں پیچیدگیاں پارٹی کو دیکھنی پڑیں۔
اب بہار جیسی ریاست میں اتحاد بھلے ہوا مگر ، بھاجپا جیت میں سب سے اوپر رہی ، پھر بھی اقتدار میں سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔جے پی نڈا کے وقت میں پارٹی جنوب اور مشرقی بھارت میں اپنی جگہ بنانے کے لئے نئی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔
بنگال میں بھاجپا 3 سے 77 سیٹوں تک پہنچی ، تیلنگانہ میں 1 سے 8 سیٹوں تک ۔ نڈا نے اتحاد کی سیاست کو بھی نئے سرے سے تعریف دی۔پارٹی کے پاس تقریبا 25 کروڑ ووٹروں کا پروفائلنگ ڈیٹا ، 9.7 لاکھ بوتھوں پر پنا پر مکھ ڈھانچہ اور اب لاکھوں کارکنوں کا مائیکر و مینجمنٹ پر مبنی نیٹ ورک آج اس کی ریڑھ ہے۔ نئی بھاجپا کی لڑائی شمالی بھارت میں اکیلے ہے اور جنوب میں اتحاد کے ذریعے۔ اب نگا ہیں مغربی بنگال تمل ناڈو اور کیرل پر ٹکی ہیں۔
ڈاکٹر رچنا گپتا