انٹرنیشنل ڈیسک: مغربی انڈونیشیا کے علاقے پنکاک میں ایک متنازعہ روایت/ رسم 'پلیزر میرج' یا 'نکاح متعہ' کے نام سے سامنے آئی ہے ، جس میں خواتین کچھ دنوں کے لیے غیر ملکی سیاحوں سے شادی کرتی ہیں۔ یہ روایت شیعہ اسلامی ثقافت سے نکلتی ہے، لیکن انڈونیشیا میں اسے قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے اور یہ طویل مدتی خاندانی تعلقات کی ملک کی پریبھاشا ( تعریف )سے میل نہیں کھاتی ہے۔
کیا ہے ' پلیزر میرج'؟
'پلیزر میرج' ایک عارضی شادی ہے جس میں مرد اور عورت دونوں باہمی رضامندی سے چند دنوں کے لیے شادی کرتے ہیں۔ اس دوران عورت گھریلو اور جنسی خدمات مہیا کرتی ہے اور مرد اسے مہر کی ایک مقررہ رقم ادا کرتا ہے۔ شادی ختم ہونے کے بعد، ایجنٹوں اور دوسرے دلالوں کا حصہ عورت کو ملنے والی رقم سے کاٹ لیا جاتا ہے، جس سے عورت کے پاس اصل رقم سے کم رقم رہ جاتی ہے۔
خواتین پر معاشی دباؤ
ان عارضی شادیوں میں شامل خواتین اکثر غریب پس منظر سے آتی ہیں اور مالی مشکلات کی وجہ سے اس عمل میں شامل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کاہیا نامی ایک خاتون نے بتایا کہ اس نے اس رسم میں 15 سے زیادہ مرتبہ حصہ لیا ہے، جس سے اسے اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ فی شادی 300 ڈالر سے 500 ڈالرکماتی ہے، جو اس کے لیے کافی نہیں ہے۔
قانونی اور سماجی حیثیت
یہ عمل انڈونیشیا میں قانونی طور پر درست نہیں ہے اور اسے ملک کے شادی کے قوانین کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اس سے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور یہ انسانی اسمگلنگ اور استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔ اگرچہ یہ عمل مقامی معیشت میں حصہ ڈالتا ہے، لیکن ا سکے پیچھے خواتین کے استحصال اور ان کے جسمانی اور ذہنی تشدد چھپا ہوتا ہے ۔