انٹرنیشنل ڈیسک: امریکہ کی جانب سے تائیوان کو دس ارب ڈالر سے زائد کے بڑے اسلحہ پیکیج کی منظوری کے بعد چین نے تائیوان کے گرد وسیع پیمانے پر فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے بری، بحری، فضائی اور راکٹ فورسز کی مشترکہ تعیناتی کے ساتھ ان مشقوں کا آغاز کیا ہے۔ چین کے مشرقی تھیٹر کمانڈ نے ان فوجی مشقوں کو ' جسٹس مشن 2025 ' کا نام دیا ہے۔ کمانڈ کے مطابق ان کا مقصد تائیوان کی آزادی کی کسی بھی کوشش اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے خلاف سخت وارننگ دینا ہے۔
ان مشقوں کے تحت جنگی تیاری، اہم بندرگاہوں کا محاصرہ، اہم سمندری راستوں پر کنٹرول اور تزویراتی علاقوں کو گھیرنے کی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ منگل کے روز تائیوان کے گرد پانچ بحری اور فضائی علاقوں میں براہ راست فائرنگ کی مشقیں بھی کی جائیں گی۔ اس پر تائیوان نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ تائیوان کی وزارت دفاع نے چین کی کارروائی کو غیر منطقی اشتعال انگیزی اور فوجی دھمکی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی افواج ہائی الرٹ پر ہیں۔ وزارت نے واضح کیا کہ ' ریپڈ رسپانس ایکسر سائز' ( فوری ردعمل کی مشقیں ) شروع کر دی گئی ہیں اور تائیوان اپنی جمہوری نظام، آزادی اور شہریوں کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
تائیوان کے مطابق پیر کی صبح تائیوان آبنائے اور قریبی علاقوں میں چین کے دو فوجی طیارے، 9 بحری جہاز اور 2 سرکاری بحری جہاز دیکھے گئے۔ صورت حال پر نظر رکھنے کے لیے تائیوان نے اپنے لڑاکا طیارے، جنگی جہاز اور ساحلی میزائل نظام تعینات کر دیے ہیں۔ ادھر چین نے امریکہ سے تائیوان کو اسلحہ کی فراہمی فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گوو جیاکن نے کہا کہ یہ اسلحہ معاہدہ چین کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کو سنگین نقصان پہنچاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 'جسٹس مشن 2025 ' محض فوجی مشق نہیں بلکہ امریکہ، تائیوان اور پورے انڈو پیسفک خطے کے لیے ایک مضبوط سیاسی اور تزویراتی پیغام ہے۔ اس کے باعث علاقائی اور عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ چین 'ون چائنا ' پالیسی کے تحت تائیوان کو اپنا اٹوٹ حصہ سمجھتا ہے اور دوبارہ اتحاد پر زور دیتا ہے، جبکہ تائیوان خود کو ایک آزاد اور جمہوری اکائی قرار دیتے ہوئے چین کے دعوؤں کو مسلسل مسترد کرتا رہا ہے۔