Latest News

پاکستان : پہلے ہندو لڑکی کو اغوا کر جبراً تبدیل کرایا مذہب، پھر بزرگ شخص سے کرایا نکاح! اب عدالت  کے تاریخی فیصلے سے دنیا دنگ

پاکستان : پہلے ہندو لڑکی کو اغوا کر جبراً تبدیل کرایا مذہب، پھر بزرگ شخص سے کرایا نکاح! اب عدالت  کے تاریخی فیصلے سے دنیا دنگ

پشاور: پاکستان کے صوبہ سندھ میں جبراً مذہب تبدیل کرنے اور نکاح کا شکار ہونے والی ہندو لڑکی سنیتا کمارِی مہاراج کو آخرکار انصاف مل گیا۔ عمرکوٹ کی عدالت نے اس معاملے میں تاریخی فیصلہ سنایا جو دنیا کو حیران کر گیا۔ سندھ صوبے کی ایک عدالت کے حکم کے بعد اس ہندو لڑکی کو اس کے خاندان کے پاس پہنچا دیا گیا جسے اغوا کر لیا گیا تھا اور جبرا مذہب تبدیل کر کے ایک بزرگ مسلم شخص سے نکاح کروا دیا گیا تھا۔
 کمیونٹی کے ایک رہنما نے یہاں یہ جانکاری دی۔ کراچی سے تقریبا 310 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع عمرکوٹ کی عدالت نے سنیتا کمارِی مہاراج کو ہفتے کے روز ان کے خاندان سے ملانے کا حکم دیا۔ یہ جانکاری  ہندو کارکن شیو کاچی نے دی، جو لڑکی کے والدین کی جانب سے معاملے کی پیروی کر رہے تھے۔


سنیتا کو میرپورخاص ضلع کے کنری قصبے سے اغوا کیا گیا تھا اور بعد میں اس کا جبرا مذہب تبدیل کرایا گیا اور ایک عمر رسیدہ مسلم شخص سے اس کا جبراً نکاح کروا دیا گیا تھا۔ مقامی ہندو کمیونٹی کے رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا کہ سنیتا ان خوش قسمت ہندو لڑکیوں میں سے ایک ہے جنہیں انصاف ملا ہے۔ عمرکوٹ سے وکیل چندر کوہلی نے پیر کو کہا، "سنیتا کا معاملہ کوئی اکیلا معاملہ نہیں ہے۔ ہندو لڑکیوں کا اغوا، جبرا مذہب تبدیلی اور نکاح ایک ایسا بحران ہے جو سندھ میں ہمارے کمیونٹی کو دہشت زدہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سنیتا کے والدین اور کارکنوں کی جانب سے معاملہ درج کروانے کے بعد پتا چلا کہ وہ عمرکوٹ میں ہے۔


عدالت نے کئی سماعتوں کے بعد اسے 'محفوظ گھر' بھیجنے کا حکم دیا۔ نوجوان لڑکی 10 اکتوبر کو میرپورخاص ضلع کی ایک سیشن عدالت میں پیش ہوئی تھی اور اس نے جج کو بتایا تھا کہ اسے اغوا کیا گیا، اس کا مذہب تبدیل کیا گیا اور اس کی خواہش کے خلاف ایک بزرگ مسلم شخص سے اس کا نکاح کروا دیا گیا۔ عدالت نے متعلقہ حکام کو آخری فیصلہ آنے تک لڑکی کو ایک محفوظ گھر میں رکھنے کی ہدایت دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ  سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں ملزمان اپنی شادی کو قانونی بتانے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اس میں لڑکی (متاثرہ)کی مرضی شامل ہے، جعلی دستاویزات پیش کرتے ہیں۔ متاثرہ لڑکیاں زیادہ تر غریب خاندانوں سے ہوتی ہیں، جن کے پاس اپنے معاملے کی پیروی کرنے کے لیے وسائل نہیں ہوتے یا انہیں علم نہیں ہوتا۔

PunjabKesari
کوہلی نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ کئی ہندو رہنما اب زیادہ تعلیم یافتہ ہندؤوں کو اس میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں، کیونکہ یہ ہمارے کمیونٹی کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اسی طرح کے ایک اور معاملے میں پچھلے ماہ کے آغاز میں 15 سالہ ہندو لڑکی نے پاکستان کے سندھ صوبے کی ایک عدالت میں اپنے خاندان کے پاس واپس جانے کی اجازت دینے کی درخواست کی تھی۔ اس لڑکی کا بھی مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا، اس سے زیادتی کی گئی اور اسلام میں مذہب تبدیل کرنے کے بعد جبرا ًنکاح کروا دیا گیا تھا۔



Comments


Scroll to Top