Latest News

تبت پر قبضہ، اب لداخ ، نیپال ، بھوٹان ، سکم اور ارونا چل پردیش پر نظر، چین کی حکمت عملی پر سابق پی ایم کا خلاصہ

تبت پر قبضہ، اب لداخ ، نیپال ، بھوٹان ، سکم اور ارونا چل پردیش پر نظر، چین کی حکمت عملی پر سابق پی ایم کا خلاصہ

 نیشنل ڈیسک: تبت کی جلاوطن حکومت کے سابق وزیرِاعظم لوبسانگ سانگے نے چین کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر بڑا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین تبت کو "ہتھیلی" اور اس کے آس پاس کے ممالک کو "پانچ انگلیوں" کی طرح دیکھتا ہے اور یہی اس کی توسیع پسندانہ پالیسی کی جڑ ہے۔
 چین کی پانچ انگلیوں کی حکمت عملی کیا ہے؟
سانگے نے خبر رساں ایجنسی ANI سے بات چیت میں کہا کہ چین کے صدر شی جن پنگ تبت کو مضبوطی سے اپنے کنٹرول میں رکھ کر پانچ آس پاس کے علاقوں  لداخ، نیپال، بھوٹان، سکم اور اروناچل پردیش  کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ حکمت عملی چین کی ایک پرانی منصوبہ بندی ہے جسے اب دوبارہ فعال طور پر نافذ کیا جا رہا ہے۔ سانگے نے کہا کہ تبت ہتھیلی ہے اور اس کے اردگرد کے علاقے پانچ انگلیاں ہیں۔ ہتھیلی کو پکڑو اور پھر انگلیوں کی طرف بڑھو  یہی چین کی حکمت عملی ہے۔
 ہندوستانی  فوج کی تعریف
سانگے نے ہندوستان کی فوج کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چین کی دراندازی کی کوششوں کو ہندوستانی  فوجی مسلسل ناکام بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈوکلام، گلوان وادی(لداخ)، سکم اور بھوٹان میں سرگرم ہیں۔ اروناچل پردیش میں تو ہر ہفتے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن ہندوستانی  فوج انہیں پیچھے دھکیل رہی ہے۔
تبت میں ترقی چین کے لیے، تبتیوں کے لیے نہیں
انہوں نے یہ بھی کہا کہ تبت میں انفراسٹرکچر تو بڑھا ہے، جیسے سڑکیں، ریلوے لائنیں، ہوائی اڈے، عمارتیں۔ لیکن ان کا فائدہ تبتیوں کو نہیں، بلکہ چین سے آنے والے تارکینِ وطن کو ہو رہا ہے۔ "تبت میں لائسنس، دکانیں، کاروبار سب پہلے چینیوں کو ملتے ہیں۔ تبتی لوگ تو دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں۔ گرمیوں میں چینی تارکین وطن تبت آتے ہیں اور پورا کاروبار اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں، جبکہ سردیوں میں تبتی لوگ بھی علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
 تبت ہے معدنی دولت کا خزانہ
سانگے نے کہا کہ تبت کی زمین چین کے لیے بے حد قیمتی ہے، کیونکہ وہاں قدرتی وسائل کی بھرمار ہے۔ انہوں نے بتایا:

  •  چین کا 75 فیصد لیتھیم ذخیرہ تبت میں ہے۔
  •  دوسرا سب سے بڑا تانبے (کاپر)کی کان کنی کا علاقہ بھی تبت میں ہے۔
  •  یورینیم، سونا اور 136 اقسام کے دیگر معدنیات تبت کی زمین میں موجود ہیں۔
  • ان تمام کی مالیت اربوں ڈالر ہے اور چین ان کا کھلے عام استحصال کر رہا ہے۔ سانگے نے کہا کہ یہ صرف جغرافیائی سیاست نہیں ہے، بلکہ معاشی فائدے کا بھی بڑا کھیل ہے۔

 تبت کی مانگ کیا ہے؟
لوبسانگ سانگے نے بتایا کہ تبتیوں کی مانگ آج بھی وہی ہے  'درمیانی راستہ' پالیسی کے تحت چین کے ساتھ بات چیت اور خود ارادیت کے حق کے ساتھ حقیقی خودمختاری۔ہم آزادی نہیں، بلکہ چین کے اندر رہتے ہوئے ایک باعزت خودمختاری چاہتے ہیں۔
 چین کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہے مشکل 
حالانکہ سانگے نے یہ بھی مانا کہ گزشتہ 30 برسوں میں چین نے کبھی سنجیدگی سے بات چیت کی کوشش نہیں کی ہے۔ وہ صرف اپنا فائدہ چاہتے ہیں اور دوسروں کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ سانگے نے کہا،  چین اب کسی کے ساتھ بات چیت نہیں کرنا چاہتا۔ وہ صرف لینے کی سوچتا ہے، دینے کی نہیں۔
 پس منظر: تبت اور چین کا تنازع 

  • 1949 میں چین نے تبت پر حملہ کیا اور 1950 تک اسے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
  • تبتی اسے غیر قانونی قبضہ مانتے ہیں اور اب ان کی جلاوطن حکومت بھارت میں کام کر رہی ہے۔
  • تبتی روحانی پیشوا دلائی لاما نے بھی "درمیانی راستے" کی حمایت کی ہے، جس میں چین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ایک پرامن حل تلاش کیا جا سکے۔
     


Comments


Scroll to Top