انٹرنیشنل ڈیسک: اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے پیر کو کہا کہ اسرائیل کے حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو 'طویل عرصے کے لیے' پس پشت ڈال دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اسرائیل کا مقصد ایران کی حکومت کا تختہ الٹنا نہیں ہے تاہم انہوں نے اس امکان کو رد نہیں کیا کہ حملوں کے نتیجے میں ایسا ہوسکتا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ایران کی حکومت بہت کمزور ہے۔
ادھر، اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع چوتھے روز میں داخل ہو گیا ہے جس میں میزائل حملوں، ڈرون حملوں اور طیارہ شکن فائرنگ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایران نے اسرائیلی حملوں کو سیلف ڈیفنس قرار دیتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ اسرائیل نے کہا ہے کہ جب تک ایران کی جوہری اور میزائل صلاحیتوں کو تباہ نہیں کر دیا جاتا وہ حملے جاری رکھے گا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے نیتن یاہو سے اپیل کی تھی کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کو نقصان نہ پہنچائیں۔ تاہم ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو تمام آپشن کھلے ہیں۔
تنازعہ نے دونوں طرف سے بہت سے شہریوں کی جانیں لی ہیں اور علاقائی استحکام پر اس کا سنگین اثر پڑا ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، روس اور ترکی سمیت عالمی برادری جنگ بندی اور سفارتی حل کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اسرائیل کے 'آپریشن رائزنگ لائن' کے تحت 13 جون کو شروع ہونے والے حملوں میں 200 سے زائد اسرائیلی طیاروں نے ایران کے اہم جوہری اور فوجی مقامات کو نشانہ بنایا۔ اس میں نتانز، تبریز اور تہران کے اڈے شامل تھے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو برسوں پیچھے کر دیا ہے۔
ایران نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور قومی سلامتی پر براہ راست حملہ ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ تنازعہ نے غزہ میں انسانی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے، مواصلاتی خدمات میں خلل ڈالا ہے اور غیر ملکی شہریوں کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ عالمی برادری نے امن کی بحالی کے لیے سفارتی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔