انٹرنیشنل ڈیسک: یمن میں مقیم ہندوستانی شہری نِمِشا پریا کو 16 جولائی 2025 کو پھانسی دی جائے گی۔ یمنی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے اب تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ تاہم نِمِشا کی جان اب بھی بچائی جا سکتی ہے ، لیکن اس کے لیے حکومت ہند کو فوری مداخلت کرنا ہو گی۔ اس وقت نِمِشا کی والدہ پریما کمار گزشتہ ایک سال سے یمن میں تعینات ہیں اور اپنی بیٹی کی جان بچانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
نِمِشا پریا کون ہیں؟
نِمِشا پریا اصل میں کیرالہ کے کوچی ضلع کی رہنے والی ہیں۔ اس کے والد کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے اور ماں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ سال 2008 میں صرف 19 سال کی عمر میں نِمِشا ملازمت کے لیے یمن چلی گئی۔ کچھ عرصے بعد وہ ہندوستان واپس آگئی اور ٹومی تھامس نامی آٹو ڈرائیور سے شادی کی۔ اس کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ دوبارہ یمن چلی گئیں۔ اس جوڑے کی ایک بیٹی بھی ہے، جس کی عمر اب 13 سال ہے۔
قتل کا مقدمہ اور سزا
2017 میں نِمِشا پریا پر اپنے یمنی بزنس پارٹنر طلال عبدو مہدی کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نِمِشا اور طلال نے پارٹنر شپ میں کلینک شروع کیا تھا، کیونکہ یمن میں غیر ملکی شہریوں کو کاروبار کے لیے مقامی پارٹنر کی ضرورت ہوتی ہے۔ نِمِشا کا الزام ہے کہ طلال نے اس کے دستاویزات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور اسے اپنی بیوی قرار دیا اور پھر جسمانی اور مالی استحصال شروع کر دیا۔ تشدد سے تنگ آ کر اس نے طلال کو بے ہوش کرنے کے لیے دوائی پلا دی لیکن زیادہ مقدار میں لینے سے وہ جاں بحق ہو گیا۔ اس کے بعد یمن پولیس نے نِمِشا کو گرفتار کر لیا اور مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی۔ کئی سال تک مقدمہ چلنے کے بعد یمن کی ٹرائل کورٹ نے اسے موت کی سزا سنائی۔ اس سزا کو بعد میں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔
صدر مملکت نے رحم کی اپیل مسترد کر دی
نِمِشا کے وکلا ء نے یمن کے صدر رشاد العلیمی کے سامنے رحم کی درخواست دائر کی تھی تاہم رواں سال جنوری میں صدر نے درخواست مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کی منظوری دے دی تھی۔
حکومت ہند سے آخری امید
اب یہ معاملہ مکمل طور پر سفارتی رخ اختیار کر چکا ہے۔ اگر ہندوستانی حکومت مداخلت کرتی ہے اور یمن کی حکومت کے ساتھ اعلی سطحی مذاکرات کرتی ہے تو یہ ممکن ہے کہ نِمِشا کی سزا کو موخر یا معاف کیا جائے۔ انسانی حقوق کے کارکنان اور سماجی تنظیمیں بھی حکومت سے بروقت ایکشن لینے کی اپیل کر رہی ہیں۔