بانڈی پورہ: شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع کے پرامن گاوں آراگام میں ایک انوکھی پہل شروع ہوئی ہے۔ شاہدہ خانم نامی نوجوان قبائلی لڑکی نے اپنے ثقافتی فخر اور تاریخی تحفظ کے خیال سے متاثر ہو کر اپنے آبائی گھر کو کشمیر کے پہلے قبائلی عجائب گھر میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ عجائب گھر گجر-بکروال برادری کے ورثے کے تحفظ اور نمائش کے لیے وقف ہے۔

یہ میوزیم گاوں کے وسط میں واقع ہے، جہاں قیمتی کپڑا، ہاتھ سے بنے اوزار، برتن، کپڑے اور مقامی قبائلی روایات کے روزمرہ استعمال کی اشیاء رکھی گئی ہیں، جو اس کمیونٹی کے شاندار ثقافتی ورثے کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ میوزیم میں سب کے لیے مفت داخلہ ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہدہ خانم نے کہا کہ میں نے بچپن سے اپنی روایات اور آباو اجداد کی کہانیاں سنی ہیں، وہ کیسے رہتے تھے، کیا استعمال کرتے تھے، کیا پہنتے تھے اور اپنی شناخت پر کتنا فخر کرتے تھے، لیکن جدیدیت کے ساتھ ساتھ میں نے دیکھا کہ ہمارے بہت سے رسم و رواج، دستکاری اور اوزار آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں، تب میں نے سوچا کہ اسے محفوظ کرنا بہت ضروری ہے۔ شاہدہ نے بغیر کسی ادارہ جاتی مدد کے خاندان اور برادری سے نسل در نسل منتقل ہونے والی اشیاء کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ اس نے کہا یہاں رکھی ہر چیز کے پیچھے ایک کہانی ہے، تانبے کی کیتلی جو میری پردادی نے استعمال کی، اون کاتنے والا آلہ جو اونچے میدانوں میں خواتین استعمال کرتی تھیں۔ ہر چیز ہماری شناخت کی گواہی دیتی ہے۔میوزیم کو روایتی قبائلی انداز میں سجایا گیا ہے، جس میں لکڑی کے ریک، مٹی کی دیواریں اور ہاتھ سے بنی نمائشیں ہیں جس میں آباو اجداد کے رہنے کے طریقے کو دکھایا گیا ہے۔ زائرین کو نہ صرف تاریخ دیکھنے کا موقع ملتا ہے بلکہ وہ سوالات بھی پوچھ سکتے ہیں اور مکالموں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔

شاہدہ نے کہاہمارا مقصد صرف اشیاء کی نمائش کرنا نہیں ہے، بلکہ نئی نسل میں ان کی جڑوں کے بارے میں شعور اور احساس پیدا کرنا ہے۔ آج بہت سے بچے اپنی ثقافت سے ناواقف ہیں۔ یہ میوزیم نسلوں کے درمیان ایک پل ثابت ہو گا، جہاں کہانیاں زندہ ہو جاتی ہیں، شاہدہ نے کہا۔ شاہدہ نے طالب علموں، محققین اور سیاحوں کو بھی مدعو کیا ہے کہ وہ گوجر-بکروال کمیونٹی کے اچھوتے ورثے کا تجربہ کرنے کے لیے میوزیم کا دورہ کریں۔یہ میوزیم سب کے لیے کھلا ہے۔ کوئی ٹکٹ نہیں، کوئی فیس نہیں۔ بس آئیں، دیکھیں، سوال پوچھیں اور اپنی شناخت پر فخر محسوس کریں، اس نے زور دیا۔

کمیونٹی کے لوگوں نے شاہدہ کے اس اقدام کو سراہا ہے، اور دیگر قبائلی علاقوں میں بھی اس ماڈل کو اپنانے کی خواہش ہے۔ شاہدہ کو امید ہے کہ حکومت اور ثقافتی ادارے میوزیم کے ایسے منصوبوں میں تعاون کریں گے۔ شاہدہ نے مضبوطی سے کہا،تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی جڑوں کو نہ بھولیں۔ یہ میوزیم اپنے ورثے کے تحفظ، تحفظ اور فروغ کے لیے میری ایک چھوٹی سی کوشش ہے، تاکہ ہماری روایات خاموشی میں نہ کھوجائیں بلکہ آنے والی نسلوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ شاہدہ خانم نے نہ صرف ماضی کو محفوظ کیا ہے بلکہ ثقافتی بیداری سے بھرے مستقبل کے بیج بھی بوئے ہیں۔