نیشنل ڈیسک: گزشتہ دنوں بنگلہ دیش سے سامنے آنے والے واقعات نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہاں دو ہندو نوجوانوں کو قتل کر دیا گیا۔ انہی واقعات کے درمیان ایک مسلم ملک اپنی جامع ثقافت اور سخت قوانین کی وجہ سے ہندؤوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن کر ابھرا ہے۔ متحدہ عرب امارات آج پوری دنیا میں مذہبی ہم آہنگی کی ایک ایسی مثال پیش کر رہا ہے، جہاں ہندو نہ صرف خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں بلکہ پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل بھی کر رہے ہیں۔
سخت قوانین: نفرت پھیلانے پر 4.5 کروڑ تک جرمانہ
متحدہ عرب امارات کی سلامتی کے پیچھے وہاں کے انتہائی سخت امتیاز مخالف قوانین ہیں۔2025 میں بھی نافذ وفاقی قانون کے تحت کسی بھی مذہب کی توہین کرنے یا نفرت انگیز تقریر کرنے پر پانچ لاکھ سے20 لاکھ درہم تک کا جرمانہ اور قید کی سزا ہو سکتی ہے، جوہندوستانی کرنسی میں تقریبا 1.15 کروڑ سے 4.5 کروڑ روپے کے برابر ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا پر بھی یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اقلیتوں میں تحفظ کا مضبوط احساس پایا جاتا ہے۔

مندروں کی شان و شوکت اور رواداری کی پالیسی
ابوظہبی میں فروری2024 میں کھلا بی اے پی ایس ہندو مندر آج عالمی ہم آہنگی کا مرکز بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ دبئی کا جیبل علی مندر اور 1958 سے قائم شری کرشن مندر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں دہائیوں سے ہندو مذہب کا احترام کیا جا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات دنیا کا واحد ملک ہے جہاں باقاعدہ وزارتِ رواداری کام کرتی ہے۔

2025 رہا کمیونٹی کا سال
متحدہ عرب امارات نے 2025 کو ' ایئر آف کمیونٹی' ( سالِ کمیونٹی ) قرار دیا ہے۔ یہاں دیوالی اور ہولی جیسے تہوار صرف گھروں تک محدود نہیں رہتے بلکہ دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ کو بھی دیوالی کے موقع پر روشن کیا جاتا ہے۔ گلوبل سیفٹی انڈیکس 2025 میں بھی متحدہ عرب امارات کو اعلی مقام حاصل ہوا ہے، جو اس کی مضبوط حفاظتی نظام کی تصدیق کرتا ہے۔