کھٹمنڈو:نیپال کے لیے دو ہزار پچیس ایک بڑی سیاسی ہلچل والا سال رہا، جب بدعنوانی، بھائی بھتیجاپن اور سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف جنریشن زیڈ کی قیادت میں سڑکوں پر ہونے والے احتجاج تشدد میں تبدیل ہو گئے اور اس کے نتیجے میں وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی اتحادی حکومت کو آخرکار اقتدار سے ہٹنا پڑا۔
ستمبر میں سیاسی ہلچل کے باعث ملک کی سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی نے نیپال کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا۔
تاہم انہوں نے ایک عبوری حکومت کی قیادت سنبھالی۔
انہوں نے فوری طور پر اعلان کیا کہ پانچ مارچ دو ہزار چھبیس کو نئے سرے سے انتخابات کرائے جائیں گے، جو دو ہزار ستائیس میں مقررہ انتخابات سے ایک سال پہلے ہوں گے۔
پرتشدد مظاہروں سے چند ہفتے قبل نیپو بیبز یا نیپو کڈز کو نشانہ بنانے والی آن لائن مہمات سے ماحول گرم ہو رہا تھا۔
یہ مہمات ایسے سیاسی اشرافیہ کے بچوں کو حوالہ بنا کر چلائی جا رہی تھیں، جو مبینہ طور پر اپنے والدین کی بدعنوانی سے کمائی گئی دولت سے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے۔
تاہم ڈیجیٹل طور پر احتجاج کے طور پر شروع ہونے والی یہ تحریک جلد ہی ایک مکمل ملک گیر تحریک میں تبدیل ہو گئی۔
آٹھ اور نو ستمبر کو جنریشن زیڈ نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے، جن میں کم از کم 77 افراد مارے گئے۔
1997 سے 2012کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کی نسل کو جنریشن زیڈ کہا جاتا ہے۔
اموات سے مشتعل مظاہرین نے پورے نیپال میں پارلیمنٹ، وزیر اعظم کے دفتر اور رہائش گاہ، سپریم کورٹ، انتظامی دفاتر اور پولیس چوکیوں سمیت اہم سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی اور ان میں توڑ پھوڑ کی۔
نیپال کمیونسٹ پارٹی متحدہ مارکسی لیننیسٹ کے صدر اولی کو عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا، جس کے بعد صدر رام چندر پوڈیل نے بارہ ستمبر کو کارکی کو قائم مقام وزیر اعظم مقرر کیا۔
ستمبر میں ہونے والے مظاہرے ہمالیائی ملک کو ہلا دینے والے واحد احتجاج نہیں تھے۔
اس سے پہلے عوام کے ایک خاص طبقے نے بادشاہت اور ہندو ریاست کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا، جبکہ نیپال نے ستمبر2015 میں بادشاہت ختم کر کے آئین اپنایا تھا۔
کھٹمنڈو میں 28 مارچ کو بادشاہت کے حامیوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں ایک فوٹو گرافرجرنلسٹ سمیت دو شہری مارے گئے اور کئی دیگر زخمی ہو گئے۔
چین کے حامی سمجھے جانے والے اولی نے نو ستمبر کو استعفیٰ دے دیا اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے دور اقتدار میں بھارت کا دورہ نہ کرنے والے پہلے نیپالی وزیر اعظم بن گئے، جبکہ ان کا سولہ ستمبر کو بھارت کا دورہ طے تھا۔
اولی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد چین کا دورہ کیا تھا، جو سابقہ روایات سے ایک بڑی تبدیلی تھی، کیونکہ پہلے نیپال کے وزرائے اعظم کا پہلا غیر ملکی دورہ بھارت کا ہوتا تھا۔
اولی نے اپریل میں بینکاک میں چھٹے بمسٹیک سربراہ اجلاس کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔
سال کے آخر میں نیپال نے سو روپے کا نیا نوٹ جاری کر کے بھارت کو ناراض کر دیا۔
اس نوٹ پر ایک نقشہ چھاپا گیا تھا جس میں کالا پانی، لپولیکھ اور لمپیادھورا کے علاقے شامل تھے، جبکہ یہ علاقے بھارت کے ہیں۔
ماضی میں بھارت نے ان علاقوں کو نقشے میں شامل کرنے کے نیپال کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ علاقائی دعووں کی کسی بھی یکطرفہ اور مصنوعی توسیع کو ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے۔