بزنس ڈیسک: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے روسی اور ایرانی تیل کی خریداری بند کرنے کا انتباہ اب بے اثر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت کے بعد اب چین نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات کے معاملے میں کسی بیرونی دباو کو قبول نہیں کرے گا۔ اسٹاک ہوم میں ہونے والے تجارتی مذاکرات کے بعد چین کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ قومی مفادات سب سے مقدم ہیں اور روس ایران سے تیل کی درآمد جاری رہے گی۔ ٹرمپ کی جانب سے 100 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی کے باوجود چین نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ دباو اور دھمکیوں سے اس کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ امریکی دباو کے باوجود چین نے روس اور ایران سے خام تیل کی درآمد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چین نے امریکہ کو واضح پیغام دیا۔
چینی وزارت خارجہ نے حال ہی میں X (سابقہ ٹویٹر) پر ایک بیان میں کہاچین اپنی توانائی کی فراہمی کا فیصلہ قومی مفادات کی بنیاد پر کرتا ہے۔ دباو¿ اور دھمکیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ چین اپنی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کا تحفظ جاری رکھے گا اور روس سے تیل خریدنا جاری رکھے گا۔
یہ بیان سٹاک ہوم میں دو روزہ تجارتی مذاکرات کے بعد سامنے آیا ہے جہاں امریکہ نے چین کو 100 فیصد محصولات عائد کرنے کی تنبیہ کی تھی۔
امریکہ کا ردعمل
امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے مذاکرات کے بعد کہا کہ چین روس سے تیل خریدنے کے معاملے پر اپنی خودمختاری کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اگر چین نے اپنی پالیسی تبدیل نہ کی تو 100 فیصد محصولات عائد کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے ایک انٹرویو میں کہاچین ایک سخت مذاکرات کار ہے لیکن ابھی بھی معاہدے کا امکان موجود ہے۔
چین کے لیے روس اور ایران سے تیل خریدنا کیوں ضروری ہے؟
2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایران کی کل تیل کی برآمدات کا 80-90% چین کو جاتا ہے۔ چین یومیہ 10 لاکھ بیرل سے زیادہ ایرانی تیل درآمد کرتا ہے جو اس کی توانائی کی ضروریات کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ جب ایران نے حال ہی میں آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی تو چین نے کھل کر اس کی مخالفت کی۔
روس سے درآمدات کی بات کریں تو بھارت کے بعد چین روس کا دوسرا سب سے بڑا تیل خریدار ہے۔ اپریل 2024 میں چین نے روس سے یومیہ 1.3 ملین بیرل تیل درآمد کیا جو کہ پچھلے مہینے کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ تھا۔