انٹرنیشنل ڈیسک: اتوار کے روز وسطی غزہ کے شہر جاویدہ میں چار سالہ مسا عبید اپنے گھر کے قریب سڑک پر اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے ربڑ کی گیند اور اپنی گڑیا لیکر آئی تھی ، لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کی خوشی کچھ ہی دیر کے لیے ہوگی۔ اسی دوپہر، سڑک کے کنارے لگے ایک خیمے پر اسرائیل کی جانب سے کئے گئے حملے میںمسا اور کئی دوسرے بچے مارے گئے۔ خطے میں بڑی حد تک امن بحال ہو چکا ہے اور مسا عبید چند ہفتے قبل ہی یہاں واپس آئی تھی۔ حملے کے بعد مسا کا 16 سالہ بڑا بھائی اسے ہسپتال لے گیا، جہاں اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔

مسا کے والد سیمی عبید نے ہاتھ میں سبز رنگ کی گیند لئے ہوئے اس واقعے کے بارے میں بتایا۔ انہو ںنے کہا کہ اس گود میں ایک گیند تھی اور اس کے ہاتھ میں ایک گڑیا تھی۔ کیا وہ ان سے فٹ بال یا گڑیا سے لڑتی ؟ وہ صرف چار سال کی تھی۔ وہ کیا کر سکتی تھی؟ وہ ایک پتھر بھی نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اسرائیلی فوج نے اس حملے پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا اور یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ دیر البلاح شہر کے قریب کے علاقے میں حملہ کیوں کیا گیا یا کس کو نشانہ بنایا گیا؟۔ اسرائیلی حکام اکثر حماس کو شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی دہشت گرد گروپ باقاعدگی سے رہائشی علاقوں اور ہسپتالوں سے کارروائیاں کرتا ہے۔ انہوں نے حماس پر شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان ظاہر الوحیدی نے کہا کہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ قبل اسرائیل کے دوبارہ حملوں کے بعد سے کم از کم 809 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2023 میں جنگ کے آغاز سے اب تک 52 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔