نیویارک: امریکی ریاست وسکونسن سے دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے۔ ملووکی شہر کے 64 سالہ ڈیوڈ بوائیڈ پر الزام ہے کہ اس نے دو نابالغ بہنوں کو اپنے گھر کے تہہ خانے میں برسوں تک قید رکھا اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب متاثرہ لڑکی نے اپنے رضاعی والدین کو اپنی تکلیف بیان کی اور انہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔
9 سال کی عمر میں شروع ہوا ظلم کا یہ سلسلہ
بڑی بہن نے بتایا کہ جب انہیں قید کیا گیا تو ان کی عمر صرف 9 سال تھی۔ اسے تہہ خانے میں ایک ستون سے جکڑا ہوا تھا۔ اسے کھانے کے لیے صرف روٹی کا ایک ٹکڑا دیا گیا اور اپنی پیاس بجھانے کے لیے گندا پانی پینے پر مجبور کیا گیا۔ اس وقت ان کی چھوٹی بہن کی عمر صرف 5 سال تھی۔
دادی کا عاشق نکلا ملزم
دونوں بہنیں اپنی سوتیلی دادی کے ایک دوست کے ساتھ رہتی تھیں، جسے وہ جی جی کہتی تھیں ۔ ملزم بوائیڈ اسی خاتون کا بوائے فرینڈ تھا۔ جب وہ خاتون گھر سے باہر ہوتی تو بوائیڈ لڑکیوں کو تہہ خانے میں لے جاتا اور ان کے ساتھ زیادتی کرتا۔ متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ ایک بار اسے یہ تک طے کرنے کے لئے مجبور کیا گیا کہ مردوں میں سے پہلے کون اسکے ساتھ جنسی زیادتی کرے گا۔ اسے پیسوں کے عوض مختلف مردوں کے پاس بھیجا جاتا تھا۔ بوائیڈ نے اسے کئی بار بلیڈ سے زخمی بھی کیا، جس میں اس کے پرائیویٹ پارٹس بھی شامل میں۔
تہہ خانے سے ملے ثبوت
جب پولیس نے بوائیڈ کے گھر کی تلاشی لی تو انہیں تہہ خانے میں چھت سے زنجیروں، کانٹے اور کئی چاقو لٹکائے ہوئے ملے۔ متاثرہ نے تہہ خانے کا نقشہ کھینچا اور اسے پولیس کو دکھایا، جس سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہی جگہ اس کا قید خانہ تھا ۔ ڈیوڈ بائیڈ کو 26 اپریل 2025 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اسے بچوں سے جنسی زیادتی، اسمگلنگ، یرغمال بنانے اور مہلک ہتھیار سے حملہ کرنے سمیت کئی سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ بوائیڈ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیاں اس کی بیٹی سے حسد کرتی تھیں، لیکن پولیس اس کے دعوے پر یقین نہیں کرتی۔
متاثرہ بہنوں کو مل رہی نفسیاتی مدد
دونوں بہنوں کو اب رضاعی نگہداشت میں رکھا گیا ہے اور انہیں نفسیاتی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے کیسز بچوں کی ذہنی صحت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور انہیں معمول کی زندگی میں واپس آنے کے لیے طویل مدتی علاج اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ پولیس فی الحال یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا اس جرم میں دوسرے لوگ بھی شامل تھے اور کیا کچھ اور لڑکیاں بھی اس کا شکار ہوئیں۔