پشاور: پاکستان میں ایک اور ہندو نابالغ لڑکی کے اغوا اور جبری مذہب تبدیل کرانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ 28 مئی کو صوبہ سندھ کے ضلع ٹنڈو آدم کی رہائشی 'سندھیا کماری' نامی ہندو نابالغ لڑکی کو اس کے گاؤں سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس کے والد نے الزام لگایا کہ ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشن کے ایک 'سید محمد عمران' نے ان کی بیٹی کو اغوا کیا اور پولیس نے بار بار کوشش کے باوجود اس کی شکایت درج نہیں کی۔ پولیس نے متاثرہ خاندان کو بلایا اور انہیں سندھیا کا حلف نامہ دکھایا جس میں کہا گیا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔

اس کی شادی سید محمد عمران سے ہوئی ہے اور اس نے اپنا نام بدل کر 'ثانیہ' رکھ لیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اس کے یا اس کے شوہر کے خلاف درج کردہ کسی بھی شکایت کو جھوٹا اور من گھڑت سمجھا جانا چاہئے۔ مقررین نے دعوی کیا کہ جہاں پولیس افسران اغوا کے مقدمات میں ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتے ہیں، وہیں میڈیکل اور لیگل افسران نابالغ لڑکیوں کو بڑی اور شادی کے لیے اہل قرار دینے کے لیے ملی بھگت کرتے ہیں۔ کم سن بچوں کو اغوا کرنے، انہیں بالغ قرار دینے اور پھر زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے ایسے واقعات سندھ میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی مذہبی تبدیلیاں ہوئیں۔ اس سے پہلے بھی ہندو لڑکیوں اور خاندانوں کو زبردستی اسلام قبول کرایاجاتا تھا اور وہاں کی حکومت بھی ان چیزوں کو عام سمجھتی ہے اور کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق یہی وجہ ہے کہ سندھ کی ہندو آبادی میں زبردست کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ وہاں کے آئین میں کھلم کھلا یہ بات شامل ہے کہ پاکستان میں کسی بھی غیر مسلم کو کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ وہاں کوئی غیر مسلم شخص صدر یا وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔