انٹرنیشنل ڈیسک: سری لنکا میں معاشی صورتحال تشویشناک حد تک بے قابو ہوگئی ہے۔ عوام مہنگائی، بے روزگاری اور ایندھن کی کمی کا شکار ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں گزشتہ 12 ہفتوں سے حکومت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو بھوکا رکھنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ خوراک بچانے کے لیے اپنے بچوں کو دوپہر تک سلانے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ کولمبو کے ایک آٹو رکشہ ڈرائیور تھوشن پریرا نے تقریبا پانچ ہفتوں سے اپنے تین بچوں کو دونوں پیٹ بھر کھانا نہیں کھلایا ہے ۔
غریب پریوار بسکٹ کے پیکٹ پر منحصر
ان کا خاندان بسکٹ کے ایک پیکٹ پر منحصر ہے، جس کی قیمت 130 سری لنکن روپے(ہندوستانی کرنسی میں 30 روپے) تک پہنچ گئی ہے ۔ پریرا کا کہنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دوپہر 12 بجے تک سلائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ انہیں صبح کا ناشتہ نہ کرانا پڑے۔ دو دن قطار میں کھڑے رہنے سے 5 لیٹر پٹرول ملتا ہے۔ حکومت پلا جھاڑ چکی ہے کہ 22 جولائی تک ایندھن نہیں آئے گا۔ 103 روپے فی لیٹر والا پٹرول بلیک میں 550 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ سری لنکا کی 2.2 کروڑ کی آبادی میں پریرا جیسے بہت سے لوگ ہیں جن میں حکومت کے خلاف کافی غصہ ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کئی گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ اس سے قبل بھارت سے قرض کے طور پر ملنے والے تقریباً 6 ہزار کروڑ روپے بھی ختم ہو چکے ہیں۔ سری لنکا نے مشرق وسطی سے لیکر روس تک سے مدد کی اپیل کی ہے۔
ڈپریشن کا شکار ہو رہے لوگ
لوگ مایوس ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ عام لوگوں کی پولیس، فوج اور فضائیہ سے آئے روز جھڑپیں ہوتی ہیں، کیونکہ وہ یہاں کے پٹرول پمپ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ معاشرے میں شورش غیر متوقع طور پر بڑھ گئی ہے جو فسادات کی صورت میں ابھر جاتی ہے۔ سکول، کالج، ہسپتال بند پڑے ہیں۔ اس لیے نوجوان اپنے خاندان کو گھر پر بے بسی سے جوجھتے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ اس ہفتے 1990 سووا شام، ایک ایمر جنسی ایمبولیس سیوا، جس کو ہندوستان نے عطیہ دیا تھا، وہ بھی ٹھپ پڑ گئی ہے ۔ یعنی ہنگامی خدمات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ حکومت کے خلاف بغاوت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ آٹو رکشہ ڈرائیور ارونا الویس کا کہنا ہے کہ جب تک یہ صورتحال بہتر نہیں ہوتی ہم صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کا گھیرا ؤکریں گے۔
کیمیکل فرٹیلائزر (کیمیائی کھادوں ) پر پابندی سے بڑھا خوراک کا بحران
سب سے زیادہ بے شرمی ہم لیڈروں میں دیکھ رہے ہیں کہ وہ لوگ جو عوام کے لیے کبھی کچھ کرتے تو نہیں لیکن ان کے لیے ہی ایندھن اور خوراک آسانی سے مہیا کرائی جارہی ہے ۔ دوسری جانب عام لوگ دو دن مسلسل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنے حصے کی اشیائے ضروریہ کا بندوبست کر رہے ہیں۔ عوامی تحریک سے ہی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ کیمیائی کھادوں پر پابندی کے باعث ملک میں خوراک کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔
متوسط طبقے کے خاندانوں نے بھی خوراک کی کھپت کم کی
گیس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گھروں میں چولہے جلا رہے ہیں۔ پریرا کا کہنا ہے کہ میں تین دن میں ایک دن کمانے کے قابل ہوں اور میں اس دن کی کمائی سے صرف تین کلو چاول خرید پاتا ہوں۔ سری لنکا کے متوسط طبقے کے خاندانوں نے بھی اپنی خوراک کی کھپت کو کم کر دیا ہے، کیونکہ وہ اتنی مہنگی خوراک لینے سے کتراتے ہیں۔مئی میں جو مہنگائی 39.1 فیصد تھی جون میں بڑھ کر 54.6 فیصد ہوگئی۔ اگر ہم صرف خوراک کی افراط زر کو دیکھیں تو یہ مئی میں 57.4 فیصد سے بڑھ کر جون میں 80.1 فیصد ہو گئی ہے۔