National News

طالبان: بھارت کی صحیح پہل

طالبان: بھارت کی صحیح پہل

 پچھلے ڈھائی مہینے سے ہماری خارجہ پالیسی  بغلیں جھانک رہی    تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ اب وہ آہستہ آہستہ  پٹری پر آنے لگی ہے۔ جب سے طالبان   کابل  میں قابض ہوئے ہیں  افغانستان کے  سارے پڑوسی دیش ا ور تینوں  مہا شکتیاں لاگاتار سرگرم  ہیں۔ وہ کچھ نہ کچھ قدم اٹھا رہی ہیں لیکن بھارت کی پالیسی خالص پچھلگو بنتی   رہی ہے۔
 ہمارے وزیر خارجہ کہتے رہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ہے -بیٹھے رہو اور دیکھتے رہوکی!میں کہتا رہا کہ یہ پالیسی ہے -  لیٹے رہو اور دیکھتے رہو کی۔  چلو  کوئی  بات نہیں     دیر  آید درست آید  ۔ جب بھارت سرکار نے نومبر میں افغانستان  کے سوال پر ایک  میٹنگ کرنے  کا  اعلان کیا ہے۔
 اس کے لئے اس نے پاکستان ، ایران ، ازبکستان ، تاجکستان ، چین اور روس کے  سکیورٹی  صلاحکاروں کو  مدعو کیا ہے۔ اس دعوت پر میرے دو سوال ہیں۔ پہلا ،  یہ کہ صرف  سکیورٹی صلاحکاروں کو کیوں بلایا جا رہا ہے؟ان کے  بدیش منتریوں کو کیوں نہیں؟ ہمارے  سکیورٹی صلاحکار کی   حیثیت  تو بھارت  کے  اپ  پردھان منتری  جیسی ہے ۔
 لیکن  باقی سبھی ملکوں میں ان کی اہمیت  اتنی ہی ہے جتنی کسی  دیگر نوکر شاہ  کی ہوتی   ہے۔ ہمارے  وزیر  خارجہ   بنیادی طور پر نوکرشاہ ہی  ہیں۔  نوکر شاہ  فیصلے نہیں کرتے ہیں۔یہ  کام نیتاؤں کا ہیں  ۔ نوکر شاہوں  کاکام  فیصلوں  کو نافذ کرنا ہے  ۔ 
دوسرا سوال یہ ہے کہ جب چین اور روس کو بلایا جا رہا ہے تو  امریکہ کو  بھارت نے کیوں نہیں بلایا؟ اس وقت  افغان سنکٹ کے مول میں  تو امریکہ   ہی  ہے۔ کیا امریکہ کو اس لئے نہیں بلایا جا رہا کہ بھارت  ہی اس کا ترجمان بن  گیا ہے؟
   امریکی مفادات کی حفاظت کا ٹھیکہ کہیں بھارت نے تو نہیں لے لیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ قدم  بھارت  کے آزاد وجود اور  اس کی خودمختاری کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔ پتہ نہیں پاکستان ہماری دعوت قبول کرے گا یا نہیں؟اگر پاکستان آتا ہے  تو اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہیں ہے۔   طالبان کے کابل میں  برسر اقتدار ہوتے ہی میں نے لکھا تھا کہ بھارت کو پاکستان سے بات کرکے کوئی مشترکہ پہل کرنی چا ہئے ۔
 کابل میں   اگر  غیر استحکامیت اور انارکی بڑھے گی تو اس کا سب سے زیادہ   منفی اثر پاکستان اور بھارت پر ہی ہوگا ۔  دونوں ملکوں کا درد یکساں ہو گا تو  یہ دونوں ملک مل کر اس کی  دوا بھی  کیوں نہیں کریں؟ اسی لئے میری  بدھائی ! اگر  طالبان کے سوال پر دونوں  دیش تعاون کریں  تو کشمیر کا حل  تو اپنے آپ  نکل آئے گا۔ 
اس وقت افغانستان کو  سب سے  ضرورت خوردنی اشیا کی ہے۔  بھکمری کا دور وہاں شروع ہو گیا ہے۔ یوروپی ممالک غیر طالبان تنظیموں کے ذریعے مدد پہنچا  رہے ہیں لیکن بھارت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہوا ہے۔ اس وقت اگر وہ   افغان  جنتا کی  خودمدد کرے  اور اس کام میں سبھی ملکوں کی رہنمائی کرے تو طالبان بھی اس کے شکر گزار ہوں گے۔
 dr.vaidik@gmail.com))



Comments


Scroll to Top