بھارتیہ سنت روایات میں بہت سے قابل قدر سنت ہوئے ہیں، لیکن جس طرح سے سنت رویداس بھارتیہ افق پر چمکتے ہیں۔ اس قسم کی چمک کسی اور میں تلاش کرنا مشکل ہے۔ سنت رویداس کے بارے میں بہت سی منفرد باتیں ہیں۔ جس وقت وہ ر ہے ہیں اس وقت کوذرا آپ یاد کرئیے ۔ اس وقت ذات پات کی بیماری کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
اگر اس وقت کا براہمن سماج ان کی تعریف کرتا ہے وہ بھی کاشی کا براہمن سماج انہیں نمن کرتا ہے تو فطری بات ہے کہ آپ مانتے سکتے ہیں کہ سنت رویداس میں اتنی چمک اور ان کی بھگتی کی کتنی دھمک رہی ہوگی۔ اس وقت کے سماج نے سنت رویداس کو آسانی سے تو تسلیم نہیں کیاہوگا ۔ لیکن رویداس جی کی بھگتی میں جو پاکیزگی، اخلاص ، جو بہتی ہوئی پریم کی رس دھارا تھی اس نے ان سب کو مجبور کردیا ہوگا کہ ان کے آگے نتمستک ہوجائیں۔
سنت رویداس اپنے زمانے میں کئی قیمتی اور اہم تبدیلیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ بھگوان تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں۔ آپ دھیان سے پہنچئے ، بھگتی سے پہنچئے ۔
میرا ناچ کرتے ہوئے پہنچ جاتی ہے تو شنکر گیان کا راستہ چنتے ہیں۔ سنت رویداس کی بھگتی کا راستہ کچھ اس طرح سے سمجھ میں آتا ہے کہ لگتا ہے کہ یہ راستہ ہمارا ہے۔ سادہ ، آسان اور آسانی سے چلنے والاراستہ لگتا ہے ۔ ان کی بھگتی سہج اور سادہ راستے سے ہوکر گزرتی ہے، آپ سوچئے کہ کوئی بھگت اپنی روزمرہ کی زندگی کے کام کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
اوروہ ٹھیک اسی وقت اپنے پربھو کو پانے کی راستے پر بھی چل پڑا ہے۔ رویداس ایسا نہیں کہتے کہ کوئی شخص اپنا کام چھوڑ کر بھگتی میں لین ہو جائے۔ وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ اپنے جوتا سلنے کا کام کرتے رتے ہیں۔ اور بھگتی بھی کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح سے ان کے گورو بھائی کبیر اپنے جولاہے کا کام کرتے ہوئے اپنی بھگتی جاری رکھتے ہیں۔ کبیر اور رویداس دونوں گوروبھائی تھے۔ یہ دونوں سنت رامانند جی کے شاگرد تھے۔سنت رویداس اور کبیر دونوں ہی کرم کانڈ میں کسی بھی طرح کے دکھاوے کے مخالف تھے۔ جس طرح کبیر اپنے کرم میں بھگتی شامل کرتے ہیں۔
اسی طرح سے رویداس بھی اپنا کام کرتے ہوئے پربھو کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ سنت رویداس جی کا جوتا بنانا اور بھگتی کرتے رہنا کئی طرح کی علامتیں قائم کرتا ہے۔ ان کی اس تصویرسے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھگوان کے لئے کسی بھی طرح کے دکھاوے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے نارمل طریقے سے بہت ہی سادہ طریقہ سے پایا جا سکتا ہے۔ ان کی سادھنا کی مثال سے یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں سادھنا کے لئے بھگوان کے لئے الگ سے وقت چاہئے ۔
تم جو کر رہے ہو اسی وقت تم پاتر ہو ایشور کو پانے کیلئے ۔ ان کی سادھنا سے یہ راستہ نظر آتا ہے جو شخص جوتا بناتے وقت ایشور میں لین ہے وہ اس کام کو بھی بھگوان کو سمرپت کر رہا ہے۔
جو شخص کپڑا بنتا ہوا بھی ایشور کو یاد کرتا ہے وہ اپنا کام بہترین تو کرے گا ہی اس کے ساتھ دنیا کے تمام موہ مایا سے بھی خود ہی الگ ہو جائے گا۔
سنت رویداس کی اگر آپ روایات دیکھیں تو اس میں آپ کوایک الگ طرح کی شان دکھائی پڑتی ہے۔ وہ سنت رامانند جی کے شاگرد تھے۔ رامانند جی نے جس شخص کو اپنا شاگرد تسلیم کیا ہوگا وہ شخص نارمل نہیں ہو سکتا۔
اس کے ساتھ ہی وہ اور کبیر گورو بھائی تھے۔ جس شخص کو ایشور پراپت ہوا وہ شخص کہے کہ میرا گورو تو سنت رویداس ہے۔ اس سے بڑی روایت اور کیا ہو سکتی ہے۔ میرا کہتی ہے گورو ملیا رویداس جی ۔ میرا کو سنت رویداس کیلئے گوروکافی اہم اس لئے بھی ہوجاتا ہے جس شخص کو ایشور خود ہی دستیاب ہو وہ کسی کو اپنا گورو کہے ۔
اور یہ بھی سوچئے کہ میرا کہاںراج رانی اور گورو رویداس سڑک پر بیٹھ کر جوتا سلنے والے ۔ پھر بھی میرا جھکتی ہے اوررویداس کو اپنا گورو کہتی ہے۔ ہمارے بندیل کھنڈ میں کہاوت ہے کہ پھل سے درخت کو پہچانا جاتا ہے۔ بیٹے سے باپ کو اور شاگرد سے استاد کو ۔ جس کی شاگرد میرا ہو صرف اتنا ہی بیان ہی سنت رویداس کو بہت اہم بنادیتا ہے۔ سنت رویداس کی زبان محبت کی زبان ہے۔ بھگتی کی زبان ہے۔ جس بھی درخت کو محبت سے سینچا گیا ہو۔ جس درخت کی جڑوں میں بھگتی کا رس ہو۔
ایسے درخت سے تو محبت کی خوشبو آنی ہی ہے۔ ایسے درختوں کے سائے میں بیٹھ کر ہی کوئی بھی سماج ہویا ملک ترقی کرتا ہی ہے۔سنت رویداس جی کا ایک واقعہ آپ سب کو پتہ ہوگا لیکن جن لوگوں کو اس کی جانکاری نہ ہو میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ سنت رویداس کے اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ اگر ہم خاص ہوکر بھگتی میں لین ہوتے ہیں۔ تو ہمیں کہیں نہیں جانا ہے۔ جہاں ہم ہیں وہیں ایشور ہے۔
پرہلاد سنگھ پٹیل
( مرکزی راجیہ منتری)