نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہریانہ کے انتخابی مہابھارت میں حکومت مخالف لہر کے حوالے سے سیاسی پنڈتوں کی پیشین گوئیوں کو ٹھکراتے ہوئے تاریخی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور مسلسل تیسری بار جیت حاصل کی۔ اس بار، بی جے پی، جس نے پچھلی اسمبلی میں ریاست میں مخلوط حکومت چلائی، 90 رکنی اسمبلی میں 48 سیٹوں پر واضح اکثریت حاصل کرکے دس سال بعد اقتدار میں واپسی کے اہم اپوزیشن کانگرس کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔
براہ راست مقابلے میں بی جے پی نے کانگرس کو شکست دی اور کانگرس صرف 37 سیٹوں تک ہی پہنچ سکی۔ سال 2019 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 40 اور کانگریس کو 31 سیٹیں ملی تھیں۔ کچھ عرصہ قبل بی جے پی سے اتحاد توڑ کر الیکشن لڑنے والی جن نائک جنتا پارٹی اس بار اپنا کھاتہ بھی نہیں کھول سکی، جبکہ گزشتہ انتخابات میں پارٹی کو 10 سیٹیں ملی تھیں۔
انڈین نیشنل لوک دل کو اس بار دو سیٹیں (ڈبوالی اور رانیہ) ملی ہیں۔ آزاد امیدواروں نے گنور، بہادر گڑھ اور حصار تین سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ہریانہ کے نتائج سے کانگرس حیران نظر آئی، پارٹی نے ان نتائج کو غیر متوقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ کانگرس کے چیف ترجمان جے رام رمیش اور پون کھیڑا نے پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہریانہ میں پارٹی سے جیت چھین لی گئی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) میں بے ضابطگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی اس کے خلاف الیکشن کمیشن سے پورے حقائق کے ساتھ رجوع کرے گی۔
بی جے پی نے اپنی جیت کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس کی حکومت کی دس سالہ گڈ گورننس اور محنت کا نتیجہ ہے۔ بی جے پی لیڈر انل وج نے کہا کہ یہ نتائج پوری طرح سے متوقع ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور دہلی کے سابق وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا ہے کہ ہریانہ کے انتخابات ایک سبق سکھاتے ہیں کہ کسی کو زیادہ اعتماد نہیں ہونا چاہئے۔ پارٹی لیڈر اور دہلی کے وزیر گوپال رائے نے کہا کہ ہم پہلے ہی محسوس کر رہے تھے کہ ایگزٹ پول کے تخمینے زمینی حقیقت سے میل نہیں کھاتے۔