National News

بگڑتے تعلقات کے درمیان بنگلہ دیش کی ''مینگو ڈپلومیسی''، پی ایم مودی کو آم دے کر آمادہ کر رہے یونس

بگڑتے تعلقات کے درمیان بنگلہ دیش کی ''مینگو ڈپلومیسی''، پی ایم مودی کو آم دے کر آمادہ کر رہے یونس

انٹرنیشنل ڈیسک:بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان کشیدہ تعلقات کے درمیان بنگلہ دیش کے عبوری انتظامیہ کے سربراہ محمد یونس نے ایک بار پھر اپنی 'مینگو ڈپلومیسی' شروع کر دی ہے۔ ڈھاکہ نے تقریباً 1000 کلو گرام بنگلہ دیش کے مشہور ہری بھنگا قسم کے آم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، بھارتی سفارت کاروں اور شمال مشرقی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھیجے ہیں۔
'مینگو ڈپلومیسی' کیا ہے؟
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان منگو ڈپلومیسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہری بھنگا آم بنگلہ دیش میں بہت مقبول ہیں اور اس سے پہلے بھی دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی علامت سمجھے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اب جب دونوں ملکوں کے تعلقات کھٹائی کا شکار ہیں تو اس 'مینگو ڈپلومیسی' سے کئی نئے معنی نکالے جا رہے ہیں۔
پیغام واضح ہے: رشتہ بچاویا...
گزشتہ سال شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی آئی تھی۔ حسینہ کو بنگلہ دیش چھوڑنا پڑا اور وہ سیدھی ہندوستان آگئیں۔ اس کے بعد سے یونس انتظامیہ بھارت پر حسینہ کو واپس بھیجنے کے لیے دباو¿ ڈال رہی ہے تاہم بھارت نے کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا۔ BIMSTEC چوٹی کانفرنس میں پی ایم مودی اور یونس کی ملاقات بھی کوئی خاص نتیجہ نہیں دے سکی۔
آم بھیجنے کے پیچھے خیر سگالی یا حکمت عملی؟
بنگلہ دیشی حکام کا کہنا ہے کہ ہری بھنگا آم جذبہ خیر سگالی کے طور پر بھیجے گئے ہیں۔ لیکن ماہرین اسے ایک سفارتی پیغام بھی سمجھ رہے ہیں تاکہ حسینہ کے حوالے کرنے کے لیے بھارت پر دباو ڈالا جا سکے۔
ہلسا ڈپلومیسی بھی خبروں میں رہی
غور طلب ہے کہ بنگلہ دیش ہلسا مچھلی ہندوستان بھیج کر 'ہلسا ڈپلومیسی' کر رہا ہے۔ لیکن گزشتہ سال کشیدگی کے درمیان ہلسا کی برآمد روک دی گئی تھی۔ بعد میں دوبارہ شروع ہوا لیکن اعتماد پوری طرح واپس نہیں آیا۔
بھارت کی تشویش
بھارت مسلسل بنگلہ دیشی انتظامیہ سے اقلیتی ہندوو¿ں اور دیگر گروہوں پر حملے بند کرنے کی اپیل کرتا رہا ہے۔ لیکن یونس انتظامیہ اسے بھارت کی 'سیاسی سازش' قرار دیتی ہے۔ کئی مسائل پر تنازعہ کے درمیان، یونس نے چین کو خلیج بنگال میں ایک 'سیکیورٹی پارٹنر' کہا تھا اور ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں کو جوڑنے والے آبی گزرگاہوں میں چینی سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی تھی۔ اس کے جواب میں بھارت نے کئی تجارتی سہولیات روک دی تھیں۔
 



Comments


Scroll to Top