وا ہے گورو جی کا خالصہ، واہے گوروجی کی فتح ! آج ویر صاحب زادوں کے تئیں، دشم پتا کے تئیں شکرانہ ظاہر کرنے کے لئے آئی ہوئی سنگت کے سبھی بھائیوں کو میرا پر نام ۔ آج من غم سے بھی بھر جاتا ہے اور فخر کی انبھوتی بھی کرتا ہے۔ جب ان کی شہادت کی بات کوئی شخص کرتا ہے تو ایک طرف تو من میں دکھ، درد اور سکھ کی بھی ایک ٹیس اٹھتی ہے کہ جنہوں نے ابھی جیون کو دیکھا ہی نہیں تھا، ان بچوں کو اتنی کرورتا سے مار دیا گیا تو شہید ہو گئے اور دوسری طرف چھاتی فخر سے پھول بھی جاتی ہے۔میں ایسے دیش میں پیدا ہوا ہوں جہاں ایک شخص اپنے چاروں صاحب زادوں کو دیش اور دھرم کے لئے سمریت کرنے سے نہیں چوکتا۔
میں ماتا گجری جی کے تیاگ، دھیرج، بچوں کو دیئے ہوئے سنسکار اور ان کے ماتر تو کو بھی من پوروک پر نام کرنا چاہتا ہوں ۔ آج ہم سب ایکترت ہوئے ہیں چار صاحب زادوں کی شہیدی ، ان کی ویرتا ، ان کے بلید ان کو یاد کرنے کے لئے۔یہ بھارت کے سوتنتر تا کے انتہاس میں بہت دردناک مہینہ مانا جاتا ہے۔ اور جن صاحب زادوں کی بات کرنا چاہتے ہیں، بابا زور آور سنگھ جن کی عمر صرف 9 سال تھی، با بافتح سنگھ کی عمر صرف 7 سال۔
ان کو ڈرایا گیا، سمجھایا گیا ، لالچ دیئے گئے ۔ مگر سنگھ کی طرح دہاڑتے ہوئے کسی لالچ میں آئے بغیر مرتیو کو پسند کیا۔ یہ بھاونا بچے میں اتنی کم آیو میں پیدا بھی نہیں ہو سکتی ۔ شاید ما تا گجری کا سنگھرش ہی ہوگا ، سمپرک ہی ہوگا، جس نے گورؤوں کے پورے سنسکار ان بچوں میں کوٹ کوٹ کر بھر دیئے۔ دوستو ، جب ہم آج اتنے سالوں کے بعد اس گھٹنا کو یاد بھی کرتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
دیش بھر کے یوواؤں کو، چاہے کسی بھی پردیش میں بستے ہوں، ان کو دشم پتا کے جیون اور صاحب زادوں کی شہیدی کے بارے میں بتانا ہم سب کا راشٹریہ دایِتو ہے۔پوری دنیا میں دھرم کے لئے لڑنے والوں کے اتہاس میں، دیش کے لئے لڑنے والوں کے انتہاس میں ایسا کوئی ویکتی نہیں مل سکتا جس نے پتا، ما تا، چار چھوٹے بیٹوں کا بلیدان دے دیا۔ کچھ نہیں بچا۔ اور اسی لئے دیش کی جنتا نے ان کو سر بنس دانی کی اپمادی ہے۔ کوئی سرکاری پدم شری ۔ پدم وبھوشن نہیں ہے۔
اپنے پتا، اپنی ماتا، اپنے چاروں بچوں کا بلیدان کرنے کے بعد بھی لڑائی جاری رکھی اور جب بابا بندا بہادر نے یہاں آکر بدلہ لیا تب پوری دنیا کو معلوم پڑا کہ آخر میں تو ستیہ کی ہی وجے ہوتی ہے۔ ستیہ کی ہی جے ہوتی ہے۔یہ ججھا روپن ہے، دھرم کے تئیں سمان ہے، ماتر بھومی کے تئیں پیار ہے، پورے دیش کے سبھی لوگوں کو جانکاری دینے کا یہ اوسر ہے۔ چار بیٹے شہید ہونے کے بعد بھی لڑتے رہنا ایک طرح سے بہت بڑی بات ہے۔
اس دیش پر نویں گورو کے جو اپکار ہیں، 5000 سال کے بعد بھی اس کا شکرانہ ادا نہیں ہو سکتا۔ کوئی بھول نہیں سکتا۔ جب کشمیر کے پنڈت ان کے پاس گئے اور کہا ہمار ا ز بر دستی دھرم پر یورتن ہو رہا ہے۔ ہمیں بچائیے ، آپ ہی بچا سکتے ہیں۔
تب ان کے مکھ سے ایک واکیہ نکلا کہ یہ ظلم تبھی رکے گا ، دھرتی کسی مہان آتما کا بلیدان مانگتی ہے۔ اور دوستو، اسی وقت کہتے ہیں نا پوت کے لکشن پالنے میں دکھ جاتے ہیں۔ اسی وقت آٹھ سال کا بالک گوند رائے دشم پتا کے پاس کھڑے تھے۔انہوں نے ایک چھن کا بھی وچار کئے بغیر کہا کہ آپ سے مہان کون ہو سکتا ہے؟ اگر بلیدان دینا ہے تو آپ کو ہی دینا چاہئے ۔ اور پھر نویں گورو کی وہ مہان یا ترادلی تک کی ، اور نگ زیب کو کہا کہ دھرم پر یورتن بند کرو۔
مجھے اگر دھرم پر یورتت کرا دیتے ہو تو پورا بھارت دھرم پر یورتن کرنے کے لئے تیار ہے۔ اور جو یا تناؤں کا ورنن ہے میں تو یہاں بولنا بھی نہیں چاہتا۔ بول بھی نہیں سکتا۔ اتنی یا تنا ئیں سہن کرنے کے بعد بھی ظالم اور اتیا چاری لوگوں کے سامنے اپنے مقدس ارادوں کو بھی انہوں نے پگھلنے نہیں دیا۔
ڈھیر ساری یا تنا ئیں سہن کر کے اپنا بلیدان دیا۔ دلی کا شیش گنج گوردوارہ سینکڑوں سال بعد بھی سبھی دیش بھکتوں کے لئے سب سے بڑا تیرتھ ا ستھان بنا ہوا ہے۔
دوستو، یہ بہت بڑے بلیدان کے سنسکار کو سالوں تک آگے لے جانے والا پل تھا۔ اور جب دونوں بیٹے زندہ دیوار میں چن دیئے گئے اور پتا کے من میں کوئی بھاو نہیں ہوں گے، ایسا نہیں ہے۔ مگر انہوں نے اس بھاو کو بھی اوپر نہیں آنے دیا۔تھوڑاری وائنڈ چلا کر دماغ میں سوچتا ہوں کہ ما تا گجری نے کیسے پگڑی باندھ کر بچوں کو وہاں بھیجا ہوگا۔ اس ماں کے دل پر کیا گزری ہوگی اپنے بیٹوں کو وہاں بھیجنا اور اتنی بہادری سے بھیجنا کہ تم گورو گووند سنگھ جی کے بیٹے ہو ۔ کہیں جھکنامت ، ڈرنامت ، دھرم کیلئے اڈِگ رہنا۔
وہ سنسکار بہت کم لوگ اپنے بچوں کو دے پاتے ہیں ، دوستو، جب انہیں سماچار ملا کہ چاروں صاحب زادے شہید ہوگئے تو ایک ماں نے ان کے سامنے سوالیہ نظر سے پوچھا کہ اب کیا ؟ میرا تو کوئی بیٹا ہی نہیں بچا۔ تب اس مہان ویکتی کے م نہ سے ایسے ہی نکل گیا کہ چار موئے تو کیا ہوا، جیوت کئی ہزار۔ بہت بڑا من چاہئے ۔
امت شاہ - وزیر داخلہ ( بھارت سرکار)