National News

اسد کی مڈ بھیڑ پر  وِواد کے معنی

اسد کی مڈ بھیڑ پر  وِواد کے معنی

مافیا عتیق احمد کے بیٹے اور امیش پال  ہتیا کانڈ  میں مطلوب انعامی ملزم اسد احمد کی پولیس  مڈبھیڑ میں موت پر جاری سیاسی  گھماسان سے کسی کو حیرانی نہیں ہوسکتی  ۔ ویسے تو پولیس  مڈبھیڑ  عام  طور پر ہمارے  یہاں  سیاست سے لے کر  ایکٹویسٹوں کے ذریعے  تنازعہ کا موضوع بنائے جاتے رہے ہیں۔ اس میں بھی یہ موضوع اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ سرکار   و ایسے مجرم کے  پریوار   کا ہے جس کے نام ہر ووٹ  بھی ملتا رہاہے۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ 24فروری کو  امیش پال کی دن دہاڑے  ہتیا کرنے کے بعد عتیق احمد کی  پتنی شائستہ پروین اور اسد احمد سمیت 5 اپرادھی  بھاگتے پھر رہے تھے۔
 اگر ملزم   خود سپردگی نہیں کریں گے  تو  پولیس کی دشا کیا ہوتی ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ پوری سیاسی اپوزیشن اور نظریاتی مخالفین یوگی سرکار  سے بار بار سوال کر رہے تھے۔
 کہ اتنے دنوں بعد  امیش پال کی ہتیا کرنے والے   ابھی تک گرفتار کیوں نہیں  ہوئے  ؟فطری طور پر پولیس پر  بھاری  دباؤ تھا کیونکہ مکھیہ منتری  نے خود ودھان سبھا میں اعلان کیا تھا کہ   اس مافیا کو مٹی  میں ملادیںگے ۔ مکھیہ منتری  کے اعلان کا مطلب ہے کہ پولیس  مستعدی  سے  قانون پر عمل کرتے ہوئے  اس  وچن کو  پورا کرے۔  یوگی آدتیہ ناتھ سے   وچار کی سطح پر کسی کا اختلاف ہو سکتا ہے۔
لیکن جرم کے خلاف  زیرو ٹالرینس  اور قانون ویوستھا کے تئیں وابستگی  کو کو ئی  مسترد نہیں کر سکتا۔ اتر پردیش جیسے راجیہ میں جرم  کو کنٹرول کرنا عام چیلنج نہیں رہا ہے۔پولیس  کے  ذریعے مڈبھیڑ، گرفتاریاں، ضبطی،بلڈوزر سے  مسماری وغیرہ  کارروائیاں  بڑے طبقے کے  لئے  ڈر سے آزادی کی وجہ بنی تو  کچھ کے  لئے  تجسس اور   مخالفین کے  لئے  سوال اٹھانے  ،   شک  پیدا کرنے کا  مدعا۔
 عتیق احمد کی گرفتاری سے لے کر امیش پال کی ہتیا   اور اب اسد احمد  و غلام محمد کے  مڈبھیڑ  میں  مارے جانے تک کہ  پورے  سلسلہ   واقعات کا سرسری طور پر نظر دوڑائیں  اور کچھ نتیجہ نکالئے  ۔کیا پچھلی سرکار وں میں پولیس کے ذریعے ایسی کارروائی ممکن تھی؟ کیا عتیق احمد کو اتنے  وقت  تک   جیل میں رکھنا اور اسے سزا دلوانے  تک کے     قانونی عمل  کے   پورے ہونے کی امید  کوئی کر سکتا تھا  ؟ 
 کیا  اس بات   کا امکان بھی  ظاہر کیا جاسکتاتھا کہ   اترپردیش کے سرکردہ باہوبلی مافیا کی پوری سلطنت منہدم ہو جائے گی اور اس کا  پریوار   در در کی ٹھوکریں کھانے  کو مجبور ہو جائے گا؟صورتحال دیکھئے،  پتنی  فرار، خود اور بھائی جیل میں، 2بیٹے جیل میں، 2جوینائل ہوم میں اور 1پولیس مڈبھیڑ میں مارا گیا۔ انسان کا یہ معمول  مزاج ہے کہ بڑے سے بڑا  اورظالم مجرم بھی سزا پانے  یا گرفتاری کے بعد پریشان ہو۔ اس کے  پریوار کے لوگ مڈبھیڑ میں مارے جائیں، سزا  پائیں تو   ان کے   تئیں  بھی ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔ جس  کا  ویڈیو فوٹیج  امیش پال کی ہتیا کا نظر آرہاہے اس کو سامنے رکھئے اور سوچئے۔
 جب وقت اس پر گولیاں چلیں  ، بم چلے اس  کے اور اس  کے  پریوار  پر کیا گزر رہی ہوگی؟ اس کی موت کے بعد اس کے  پریوار کی  حالت  کیا  ہوگی؟
 پولیس  جان  بوجھ  کر اسے مارے  گی  اس پر شک کرنے  کے  معقول  ثبوت  ہیں۔ آخر اسد کے زندہ پکڑے جانے کے بعد بہت سارے جرائم سے پردہ ہٹ سکتاتھا۔
  امیش پال کی ہتیا کی بھی  پوری سازش کا  پتہ چل سکتا ہے۔ عتیق  توجیل میں تھا۔ سامنے کیا ہورہاتھا یہ اسے معلوم تھا  ۔  جتنے  ٹھوس ثبوت پورے  پریوار  اور ان کے ساتھیوں کے خلاف  آگئے ان میں کورٹ  سے اس کا بچ نکلنا   ممکن نہیں تھا۔
اس  لئے   جان بوجھ کر  پولیس اسے  موت کے گھاٹ نہیں  اتارنا چاہے گی۔ یہ  بات  صحیح ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے سخت موقف کے بعد پولیس انتظامیہ نے ایسی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ کہ عتیق کا مجرم  پریوار ہی نہیں ، اس سے جڑے  ہوئے سارے  مجرم،  اس میں تعاون کرنے والے  لوگوںکے  لئے  بھی کہیں چھپانا ناممکن ہو گیا تھا۔ جتنی جانکاری سامنے آئی ہے اسد احمد اور غلام  لگاتار جگہ بدلتے بھاگ رہے تھے۔
 ہم مانتے ہیں کہ  چاہے  مجرم  کتنا بڑا ہو، کارروائی میں سو فیصد قوانین پر عمل ہونا چاہئے لیکن شک کرنے والے سوال اٹھانے والوں کو بھی ایسے معاملوں میں زیادہ سنگین اور پختہ ہونا چاہئے۔
  اکھلیش یادو یا ان کی پارٹی، مایاوتی، اسد الدین اویسی وغیرہ کا بیان زیادہ سیاسی ہے۔ کسی کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے کہ آگے  ہتیا کرنے کے بعد  پولیس سے وہ  بھگتا   کیوں پھر رہا تھا۔جب  کہ  واضح ہو گیاتھا کہ پوری  سرکار  کے سامنے  اس کو زندہ  یا مردہ لانا  قانون  ویوستھا کے  تئیں  وابستگی کو ثابت کرنے جیسا ہوگیا تھا ۔ مخالفین اب یوگی انتظامیہ پر یہ سوال ہی  نہیں اٹھا سکتے کہ امیش پال کے قاتل کہاں ہیں؟
  پولیس نے واقعے کے 4 دن بعد  مڈبھیڑ میںارباز کو مار گرایا ۔ 6 مارچ کو عثمان عرف وجے  کو مڈبھیڑ میں ڈھیر کیا ۔ اسد اور غلام کے بعد صرف 2 مجرم بچے ہیں۔ گڈو مسلم اور صابر۔ اتر پردیش اور  دیش کا ماحول ایسا ہے کہ جس میں لوگ کہنے  لگے  ہیں کہ  یہ ہوتی  ہے مجرموں کے خلاف کارروائی ۔ 
 عتیق اور اشرف کی شنی  وار  دیر رات   تین حملہ  آوروں نے گالی مار کر ہتیا کردی۔
awadheshkum@gmail.com
   اودھیش کمار



Comments


Scroll to Top