انٹرنیشنل ڈیسک: بدھ کے روز جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی)کے 54ویں اجلاس میں ایک کشمیری خاتون کارکن نے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے اس کے ہندوستان مخالف پروپیگنڈے کو بے نقاب کردیا۔ تسلیمہ اختر جو ایک سماجی و سیاسی کارکن ہیں، نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیر کی رہنے والی ہونے کے ناطے وہ جموں و کشمیر اور پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر(پی او کے)کے درمیان ترقیاتی فرق کو اجاگر کرنا چاہیں گی۔
خاتون کارکن نے کونسل کو بتایا کہ جب کہ جموں و کشمیر میں حکومت خطے کی بہتری کے لیے تبدیلی لانے والی تبدیلیاں لا رہی ہے، وہیں PoK کے لوگ حکومت پاکستان کے رحم و کرم پر رہ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہاں مرکزی حکومت خطے میں امن اور خوشحالی لانے کے علاوہ جموں کشمیر میں بھی بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے، وہیں، پاکستان اپنی بنیادی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور ہندوستان کے خلاف پراکسی جنگ چھیڑنے کے لیے دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دے رہا ہے۔ تسلیمہ نے یو این ایچ آر سی کو بتایا کہ غربت کی شرح جموں و کشمیر میں بھی پی او کے سے بہت کم ہے۔
انہوں نے بتایاکہ جموں و کشمیر میں فی کس آمدنی تقریبا 2500 امریکی ڈالر ہے، جو کہ پی او کے سے بہت زیادہ ہے، جب کہ وہاں فی کس آمدنی تقریبا 1000 امریکی ڈالر اور گلگت بلتستان میں تقریبا 250 امریکی ڈالر ہے۔ تسلیمہ نے یو این ایچ آر سی سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت پاکستان کی جوابدہی طے کرنے کے لئے مناسب قدم اٹھائے ۔ بعد میں، تسلیمہ نے ایک انٹرویو میں جموں- کشمیر میں دہشت گردی کی سرپرستی کے لیے کشمیر کے لوگوں کی معصوم جانوں سے کھیلنے کے لئے پاکستان کو بھی لتاڑ لگائی ہے ۔