Latest News

آلودگی سے نمٹنے کے لیے 7500  الیکٹرک بسیں چلانے کا ہدف: منجندر سنگھ سرسہ

آلودگی سے نمٹنے کے لیے 7500  الیکٹرک بسیں چلانے کا ہدف: منجندر سنگھ سرسہ

دہلی این سی آر میں آلودگی خطرناک سطح پر برقرار ہے۔ آلودگی کے معاملے پر اپوزیشن حکومت کو گھیر رہی ہے اور سوال اٹھا رہی ہے کہ گیارہ مہینے کی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت نے آلودگی سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ اسی دوران مرکزی حکومت نے دارالحکومت میں عوامی نقل و حمل کو فروغ دینے کے لیے میٹرو کے پانچویں فیز( مرحلے )  کی تین نئی لائنوں کو منظوری دیتے ہوئے بارہ ہزار کروڑ روپے منظور کیے ہیں تاکہ دہلی میں آلودگی سے نمٹنے میں سہولت ہو۔ وہیں دہلی حکومت نے موجودہ 3500 سے دگنی الیکٹرک بسیں چلانے کا ہدف رکھا ہے۔ آلودگی کے خلاف پنجاب کیسری کی مہم کے تحت آج ہم نے تمام سوالات کے جواب جاننے کے لیے دہلی کے ماحولیات کے وزیر منجندر سنگھ سرسہ سے خصوصی گفتگو کی۔پیش ہیں ن سے ہوئی بات چیت کے اہم اقتباسات۔ 
سوال: اس وقت دہلی حکومت آلودگی سے نمٹنے کے لیے کون سے ایسے کام کر رہی ہے جو فوری راحت فراہم کر سکیں؟ 
جواب
: یہ مسئلہ ہمیں وراثت میں ملا ہے۔ ہم ستائیس سال بعد اقتدار میں آئے ہیں اور یہ بیماری بھی 27 سال پرانی ہے۔ گزشتہ دس سال عام آدمی پارٹی کی حکومت رہی اور ہر سال یہی کہا گیا کہ آلودگی ختم کریں گے لیکن حقیقت میں کچھ نہیں کیا گیا۔ اگر انہوں نے دس سال میں پانچ بڑے کام بھی کر دیے ہوتے تو آج ہمیں باقی پانچ کرنے پڑتے۔ لیکن جب کچھ بھی نہیں کیا گیا تو آج ہمیں سارے کام ایک ساتھ کرنے پڑ رہے ہیں۔
سوال: وہ کون سے کام تھے جو پہلے ہو جانے چاہیے تھے اور اب آپ کر رہے ہیں؟ 
جواب
: دہلی میں جو کچرے کے پہاڑ آپ دیکھتے ہیں وہ آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ پہلے انہیں ہٹانے پر کوئی سنجیدہ کام نہیں ہوا۔ ہم نے آتے ہی اس پر کام شروع کیا اور تقریبا چالیس فیصد کچرے کے پہاڑ ختم کر دیے گئے ہیں۔ ڈسٹ میٹگیشن (گرد و غبار  کے کنٹرول)  پر پچھلی حکومت نے کام کرنا تو دور اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ ہم نے اب سڑکوں کی دوبارہ تہہ بچھانے کا کام شروع کیا ہے اور مکمل طور پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کام کیا جا رہا ہے۔ جہاں کہیں مٹی والا حصہ ہے اسے ختم کیا جا رہا ہے، کہیں فٹ پاتھ بنائے جا رہے ہیں، کہیں کور کیا جا رہا ہے اور کہیں شجرکاری کی جا رہی ہے، کیونکہ مٹی ہی گرد بن کر آلودگی کا بڑا ذریعہ بنتی ہے۔
سوال: دہلی این سی آر میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے، اس سے نمٹنے کے لیے آپ نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟ 
جواب
: گاڑیوں سے ہونے والی آلودگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پرانی گاڑیاں، ٹرک اور بسیں، اگر پہلے اس پر کام ہو گیا ہوتا تو بیماری کافی حد تک ختم ہو چکی ہوتی۔ اسی لیے ہم نے الیکٹرک بسوں کو تیزی سے شامل کرنا شروع کیا ہے۔ آج ہمارا ہدف تقریباً  چار ہزار بسوں تک پہنچنے کا ہے اور سن 2026 تک 7500  بسوں کا بیڑا تیار کرنے کا ہدف ہے۔
سوال: دہلی میں گیارہ مہینے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، آخر کب تک آپ پچھلی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہراتے رہیں گے؟ 
جواب:
ہم الزام نہیں لگا رہے بلکہ حقیقت بتا رہے ہیں۔ اگر پہلے کچھ نہیں کیا گیا تو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بیماری آئی کہاں سے۔ ہر مہینے ہم گزشتہ سال کے مقابلے میں 40سے 50  اے کیو آئی پوائنٹس کم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کم از کم ہم نے حالات کو بگڑنے نہیں دیا۔
سوال: آپ ماحولیات کے وزیر ہیں، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آلودگی کا مستقل حل ہونا چاہیے؟ ۔
جواب
: بالکل ہونا چاہیے۔ لیکن جب مسئلہ 25 سے 27 سال پرانا ہو تو وہ پانچ سات مہینوں میں ختم نہیں ہو سکتا۔ آلودگی ختم کرنے کے لیے پانچ بڑے کام ضروری ہیں۔ پہلا یہ کہ تمام گاڑیوں کو غیر آلودگی پھیلانے والی بنانا، بی ایس 6  اور الیکٹرک گاڑیوں کی طرف جانا۔ اس کے لیے چارجنگ اسٹیشن اور مکمل بنیادی ڈھانچہ درکار ہے جس پر ہم مسلسل کام کر رہے ہیں۔ آج ہم دہلی کے اندر پچھلی حکومت کا چھوڑا ہوا 35 ہزار میٹرک ٹن پرانا کچرا اٹھا رہے ہیں جو دس سال کا ہے، اور 8 ہزار میٹرک ٹن کچرا ہم روزانہ اٹھا رہے ہیں جو ہر دن دہلی میں پیدا ہوتا ہے۔ دونوں کو ملا دیا جائے تو 43 ہزار میٹرک ٹن کچرا روزانہ پروسیس کر کے دہلی سے باہر نکالنا ایک بہت بڑا کام ہے۔ پوری دنیا میں کوئی ایسا شہر نہیں ہوگا جو 42 سے 43 ہزار میٹرک ٹن کچرا روز شہر سے باہر نکالتا ہو۔
سوال: دارالحکومت میں صنعتوں سے نکلنے والا فضلہ بھی آلودگی کے لیے ذمہ دار ہے، اس کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟ 
جواب
: عام آدمی پارٹی کی حکومت نے کچھ کیا ہی نہیں، تو پھر یہ کہنا بھی پڑتا ہے۔ جب شیلا دیکشت کی حکومت دو بار آئی تھی  تب یہ صنعتی علاقے غیر قانونی تھے۔ انہیں باقاعدہ بنانے کی بات ہوئی تھی لیکن تب سے لے کر اب تک کچھ نہیں کیا گیا۔ نہ نقشہ دیا گیا اور نہ انہیں آلودگی کے دائرے میں لایا گیا۔ اب ہم نے اپنی حکومت میں 9ہزار صنعتوں کو آلودگی کے دائرے میں لایا ہے۔ ان کے معیار طے کیے ہیں اور انہیں کہا گیا ہے کہ صنعتوں کو اپنی آلودگی پر قابو پانا ہوگا۔ ہمارے ساتھ ساتھ غازی آباد، میرٹھ اور پورا ہریانہ، سونی پت، پانی پت، روہتک، گروگرام، فرید آباد اور پلول، سب کو مل کر ہی ایسے اقدامات کرنے ہوں گے۔
سوال: اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ اے کیو آئی میں ہیرا پھیری کی جا رہی ہے۔
جواب:
ہاں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اے کیو آئی میٹر پر پانی ڈال کر کام ختم کیا جا رہا ہے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ واٹر اسپرنکلنگ کا کام جاری ہے اور صحیح طریقے سے اسپرنکلر لگائے گئے ہیں۔ جب تک گرد و غبار پر مکمل کنٹرول نہیں ہو جاتا یہ طریقہ ضروری ہے۔ یہ تمام اسپرنکلر ہماری اپنی ٹیم نے لگائے ہیں اور کوئی ان میں چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ بھی اس کی نگرانی کر رہی ہے۔
سوال: نتن گڈکری نے کہا ہے کہ آلودگی میں چالیس فیصد حصہ ٹرانسپورٹ سیکٹر کا ہے۔
جواب:
ہر ضلع میں گاڑیوں سے متعلق مسائل پر کام ہو رہا ہے۔ اگر آلودگی کی جانچ نہیں کی جائے گی تو پیمانے درست نہیں رہیں گے۔ اسی لیے گاڑیوں سے ہونے والی آلودگی پر مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔
سوال: پارلیمنٹ میں راہل گاندھی نے آلودگی کا مسئلہ اٹھایا لیکن بحث نہیں ہو سکی، آخر کیوں؟ 
جواب:
راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں مسئلہ اٹھایا۔ لیکن جب عام آدمی پارٹی کی حکومت تھی تب بحث کیوں نہیں ہوتی تھی۔ اب اراکین پارلیمنٹ کو سمجھانا پڑتا ہے کہ دہلی کی آلودگی کیسے بڑھی۔ آلودگی تو شیلا دیکشت کی حکومت میں بھی تھی تب بحث کیوں نہیں ہوئی۔ مرکزی حکومت نے کبھی بھی بحث سے انکار نہیں کیا۔
سوال: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ منصوبے تو بہت ہیں لیکن نظام میں بیٹھے افسران صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہے؟ 
جواب
: افسران کام کر رہے ہیں۔ اب کوئی کھینچا تانی نہیں ہوتی۔ سب سے بڑا کردار چیف سیکریٹری کا ہے۔ جہاں لڑنا چاہیے وہاں لڑتے ہیں۔ پہلے ہر جگہ لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا تھا لیکن اب ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ جو افسر کام نہیں کرے گا اس پر کارروائی کی جائے گی۔ آلودگی کے معاملے پر میں خود زمینی سطح پر جائزہ لے رہا ہوں۔
پنجاب میں پرالی کم جلی پھر بھی اے کیو آئی 400 کیوں؟
پنجاب میں پرالی کے معاملات میں ریکارڈ کمی پر سوال کے جواب میں منجندر سنگھ سرسہ  نے کہا کہ ماحول کے خلاف جو بھی چیزیں ہیں ان پر روک لگانا ضروری ہے۔ پنجاب کے لیے دیکھیں کہ مرکزی حکومت نے کتنا بڑا کام کیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر اب تک پرالی پر سب سے بڑا کام ہوا ہے تو وہ مرکزی حکومت نے کیا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ مشینیں فراہم کی گئی ہیں اور یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس کا اثر اعداد و شمار پر بھی پڑتا ہے۔ اگرچہ اعداد و شمار کم آئے ہوں لیکن آلودگی کے لیے پرالی بھی ذمہ دار ہے۔ اگر پنجاب میں پرالی کے معاملات کم آئے ہیں تو وہاں کا اے کیو آئی 400  کے آس پاس کیوں ہے؟ 
دہلی میں تقریبا 12لاکھ گاڑیوں کے داخلے پر پابندی ہے، اس سے آلودگی کتنی کم ہوگی؟ 
جواب
:  بالکل میں آپ کی بات سے متفق ہوں، اس سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ آسمان کی کوئی سرحد نہیں بنائی جا سکتی۔ لیکن کم از کم دہلی میں آ کر براہ راست آلودگی نہ پھیلائیں، اس پر روک لگانے کا کام کیا گیا ہے۔ یہ پابندی گریپ 4 کے دوران لگائی گئی ہے۔ اگر آپ اپنی گاڑی لے کر بھی آ رہے ہیں تو یہاں آ کر آلودگی نہ پھیلائیں، اسی کو روکنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ لیکن یہ مستقل نہیں ہے۔
سوال : پہلے کی حکومت میں الزامات لگتے تھے، اب پڑوسی ریاستوں کے ساتھ آلودگی پر تال میل کیسا ہے؟ 
دو سے تین سال میں آپ کو ایک بہت بڑی اور واضح تبدیلی نظر آئے گی۔ جب آپ ریاستوں کی بات کرتے ہیں تو پہلے عام آدمی پارٹی کی حکومت نے الزام تراشی اور لڑائی جھگڑے میں ہی سارا وقت گزار دیا۔ اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جب بھوپیندر یادو اجلاس بلاتے ہیں تو تمام ریاستیں آتی ہیں، پنجاب بھی آتا ہے۔ تمام ریاستوں کو جو اہداف دیے جاتے ہیں وہ تقریبا ًپورے کیے جا رہے ہیں۔
اراولی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اپوزیشن نے اسے ایک تاثر بنانے کی کوشش کی۔ کئی بار ہمیں لگتا ہے کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، لیکن جب حکومت کو معلوم ہوا کہ اسے ایشو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو بھوپیندر یادو نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اراولی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کوئی بھی اراولی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اراولی پہاڑی سلسلہ پہلے سے زیادہ محفوظ ہے۔
دہلی وزیر ماحولیات منجندر سنگھ سرسہ 



Comments


Scroll to Top