نئی دہلی:سپریم کورٹ نے پیر کے روز کہا کہ وہ بہار کی ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر 10 جولائی کو سماعت کرے گا جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جائیمالیہ باغچی کی بنچ نے اس معاملے کی جلد سماعت کے لیے عرضی گزاروں کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمی جمعرات کے روز اس معاملے پر سماعت کرے گی۔
بہار میں رواں سال کے نومبر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس سے پہلے ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ متعدد رضاکار تنظیموں کی طرف سے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی کھل کر مخالفت کی جارہی ہے، جن میں نظر ثانی کے لیے مقررہ وقت سمیت عملی مشکلات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے ووٹروں کی بڑی تعداد اپنے حق رائے دہی سے محروم ہوسکتی ہے۔ لہٰذا درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 24 جون کو جاری کردہ مذکورہ حکم نامہ منسوخ کیا جائے۔
عرضی گزاروں میں کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال، ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا، راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سپریا سولے، سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ، شیوسینا (یو بی ٹی) کے اروند ساونت، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے رکن پارلیمنٹ سرفراز احمد اور سی پی آئی ایم ایل کے دیپانکر بھٹاچاریہ شامل ہیں۔ اسی طرح، غیر سرکاری تنظیموں ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز، پی یو سی ایل اور سماجی کارکن یوگیندر یادو سمیت دیگر نے اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے 24 جون 2025 کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں الگ الگ درخواستیں دائر کی ہیں۔ درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 14، 19، 21، 325 اور 326 کے ساتھ ہی عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 اور ووٹر کی رجسٹریشن رولز 1960 کے اصول 21 اے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس عمل سے لاکھوں ووٹر اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے سے محروم ہوسکتے ہ?ں۔ اس سے ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اور جمہوریت متاثر ہوگی، جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔
این جی او 'ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز' کی جانب سے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کے ذریعے دائر درخواست میں الیکشن کمیشن کے حکم کو من مانی اور آئین کے مختلف آرٹیکلز کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ ان کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس حکم سے ریاست کے لاکھوں ووٹرز ووٹ دینے کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔
رٹ پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے نومبر 2025 میں ہونے والے ریاستی انتخابات کے پیش نظر بہار میں خصوصی نظر ثانی کرنے کے لیے غیر معقول اور ناقابل عمل ڈیڈ لائن جاری کی ہے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے حکم سے ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کی ذمہ داری ریاست کے شہریوں پر ڈال دی ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ کمیشن کے مذکورہ فیصلے میں بہار کی 2003 کی ووٹر لسٹ میں شامل نہ ہونے والے ووٹروں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے مخصوص دستاویزات پیش کریں، جو اکثر لوگوں کے پاس موجود نہ?ں ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 2003 سے اب تک بہار میں پانچ عام انتخابات اور پانچ اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں، جن میں ووٹر لسٹ میں ووٹروں کے نام لگاتار جوڑے اور ہٹائے گئے ہیں۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ جہاں بہار یا ملک کی کسی دیگر ریاست میں خصوصی نظر ثانی مثبت قدم ہوسکتا ہے، الیکشن کمیشن نے جس طرف الیکشن والی ریاست بہار میں خصوصی نظر ثانی کی ہدایت دی ہے، اس سے سوالات کھڑے ہوئے ہیں۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 29 اکتوبر 2024 سے 06 جنوری 2025 کے درمیان خصوصی سمری پر نظرثانی پہلے ہی کی جا چکی ہے، جس میں نقل مکانی اور موت یا دیگر وجوہات کی وجہ سے نا اہل ووٹر جیسے معاملات کو نمٹایا گیا تھا۔ اس طرح، انتخاب والی ریاست بہار میں اتنے کم وقت میں اس طرح کی خصوصی نظر ثانی کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جس سے لاکھوں ووٹروں کے حق رائے دہی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ درخواست میں یہ بھی دلیل دی گئی ہے کہ بہار ایسی ریاست ہے جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرتے ہیں۔ کروڑوں مہاجر مزدور دوسرے علاقوں میں موجود ہ?ں، جن کا نام ووٹر لسٹ سے کٹ سکتا ہے۔ ایسے میں یہاں کی بڑی آبادی کے پاس نہ تو پیدائشی سرٹیفکیٹ ہے اور نہ ہی اپنے والدین سے متعلق کوئی دستاویزات ہے۔ درخواست میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے تازہ حکم سے ریاست کے تین کروڑ سے زائد ووٹروں کو اپنے حق رائے دہی سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں خاص طور پر درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور مہاجر مزدور شامل