انٹرنیشنل ڈیسک: سعودی عرب نے یمن کے بندرگاہی شہر مُکالا پر بمباری کر کے اسلحہ کی ایک ایسی کھیپ کو نشانہ بنایا ہے جس کے بارے میں دعوی کیا گیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات سے آئی تھی اور یمن کے ایک علیحدگی پسند تنظیم کے لیے بھیجی جا رہی تھی۔ سعودی عرب نے منگل کے روز اس فوجی کارروائی کی تصدیق کی۔ یہ حملہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ ' سدرن ٹرانزیشنل کونسل ' ( STC)کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس سے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف ایک دہائی سے جاری جنگ کے دوران ریاض اور ابوظہبی کے تعلقات میں دراڑ کے اشارے بھی ملے ہیں۔
سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی قیادت میں قائم اتحادی فضائیہ نے یہ کارروائی اس وقت انجام دی جب متحدہ عرب امارات کے مشرقی ساحل پر واقع فجیرہ بندرگاہ سے آنے والے دو جہاز مُکالا پہنچے۔ فوج کے بیان میں کہا گیا کہ ان جہازوں سے اتارے گئے ہتھیار اور جنگی گاڑیاں علاقے کی سلامتی اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ پیدا کر رہی تھیں۔ بیان میں کہا گیا کہ ان ہتھیاروں سے پیدا ہونے والے خطرے کو دیکھتے ہوئے اتحادی فضائیہ نے ایک محدود فوجی کارروائی کی اورمُکا لا بندرگاہ پر موجود ہتھیاروں اور جنگی گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں
اس پورے واقعے پر متحدہ عرب امارات کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یمن کی جنگ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات طویل عرصے سے مختلف مقامی گروہوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ حالیہ بمباری نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یمن کا بحران اب صرف حوثی باغیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ علاقائی اتحادیوں کے درمیان تصادم کی شکل بھی اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس واقعے سے یمن میں امن کی کوششوں کو مزید دھچکا لگ سکتا ہے اور مشرق وسطی میں عدم استحکام بڑھنے کا خدشہ ہے۔
یمن میں ہنگامی حالت کا اعلان
سعودی عرب کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں کے بعد یمن میں حوثی مخالف فورسز نے منگل کے روز ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ ان فورسز نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں تمام سرحدی چوکیوں کو 72 گھنٹوں کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے، تاہم ان افراد کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے جنہیں سعودی عرب کی جانب سے اجازت دی گئی ہے۔