National News

امریکہ میں لائیو رپورٹنگ کرتے ہوئے پولیس اہلکار نےصحافی کوماری گولی، سامنےآئی ویڈیو

امریکہ میں لائیو رپورٹنگ کرتے ہوئے پولیس اہلکار نےصحافی کوماری گولی، سامنےآئی ویڈیو

انٹرنیشنل ڈیسک: امریکی شہر لاس اینجلس میں حال ہی میں بڑے پرتشدد واقعات ہوئے ہیں۔ ان واقعات کے درمیان ایک غیر ملکی خاتون صحافی کو گولی مارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون رپورٹر لائیو رپورٹنگ کر رہی تھیں تبھی پیچھے کھڑے پولیس اہلکار نے ا ن کی ٹانگ میں گولی مار دی۔
اس خاتون رپورٹر کا نام لارین ٹوماسی ہے اور اس کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ لاس اینجلس میں ہونے والے مظاہروں کی رپورٹنگ کر رہی تھیں۔ رپورٹر کا کہنا ہے کہ پولیس افسر نے جان بوجھ کر اسے نشانہ بنایا۔
ملک بدری کے چھاپے کے بعد احتجاج شروع ہوا۔
یہ تشدد امریکہ میں ملک بدری کی حالیہ بڑی مہم کے بعد شروع ہوا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کچھ علاقوں پر چھاپے مارے، جہاں سے بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہ رہے تھے۔ اس مہم کے خلاف مقامی لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ان مظاہروں نے پرتشدد رخ بھی اختیار کر لیا۔ ربڑ کی گولی لگنے سے رپورٹر زخمی ہو گئیں

https://x.com/P_Kallioniemi/status/1931913315447382426
جب لارین ٹوماسی پرتشدد مظاہرے کی لائیو رپورٹنگ کر رہی تھیں، پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ اس دوران ایک پولیس افسر نے اس کی ٹانگ میں ربڑ کی گولی ماری جس سے وہ زخمی ہو گئی۔ ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس افسر نے اپنی رائفل اٹھائی اور براہ راست ٹوماسی پر گولی چلا دی۔ زخمی رپورٹر کا کہنا تھا کہ وہ گھنٹوں صورتحال کو کور کرتی رہی۔ اچانک گھوڑے پر سوار پولیس نے مظاہرین کے خلاف کارروائی شروع کر دی اور اس دوران وہ زخمی ہو گئیں۔
 گولی لگنے کے بعد کی تصاویر اور آوازیں۔
ویڈیو میں فائرنگ کے ساتھ ٹوماسی کی چیخ بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس کے بعد بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے رپورٹر کو گولی مار دی ہے۔ ساتھ ہی رپورٹر کی چوٹیں زیادہ سنگین نہیں ہیں اور ان کی حالت بھی مستحکم بتائی جاتی ہے۔
یہ واقعہ امریکہ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ صحافیوں کی حفاظت کے بارے میں بھی سوالات اٹھاتا ہے، خاص طور پر جب وہ حساس اور پرتشدد واقعات کی رپورٹنگ کر رہے ہو تے ہیں۔



Comments


Scroll to Top