Latest News

نظم'مسجدقرطبہ‘1,200برس کی اسلامی تاریخ وتہذیب،فنون ِلطیفہ اورسیاسی منظرنامے کانچوڑ:پروفیسربیگ احساس

نظم'مسجدقرطبہ‘1,200برس کی اسلامی تاریخ وتہذیب،فنون ِلطیفہ اورسیاسی منظرنامے کانچوڑ:پروفیسربیگ احساس

حیدرآباد:”علامہ اقبال کی تخلیق ”مسجدقرطبہ“ مواد اور ہیئت دونوں اعتبار سے اردو کی لازوال نظموں میں سے ہے۔8 بندوں پر مشتمل یہ نظم قصیدے کی ہیئت میں لکھی گئی ہے اور اس کے ہر بند میں8 اشعار ہیں۔اس میں اقبال نے 1200برس کی اسلامی تاریخ و تہذیب، فنونِ لطیفہ، سیاسی منظر نامہ اور مذہبی عقائد کا نچوڑ پیش کردیا ہے۔اقبال کے کلام میں ”مسجد قرطبہ“، ”ساقی نامہ“ اور”ذوق و شوق“ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔وہ اگر کچھ اور نہیں کہتے تب بھی یہ 3نظمیں انھیں تاریخ ادب میں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھیں۔“ ان خیالات کا اظہار ممتاز افسانہ نگاراور بازگشت آن لائن ادبی فورم کے صدرپروفیسربیگ احساس نے”بازگشت“ کی جانب سے علامہ اقبال کی نظم ”مسجدِ قرطبہ“ کی پیش کش اوران کی شاعری سے متعلق گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں صدارتی خطاب میں کیا۔

Reimagining Iqbal at the Mosque of Cordoba - DAWN.COM

انھوں نے مزید کہا کہ ”مسجد قرطبہ“ میں اقبال نے برگساں کا فلسفہ پیش کیا ہے کہ وقت ایک بہتا ہوا دریا ہے۔وقت کے بہاو میں قومیں ابھرتی ڈوبتی رہتی ہیں لیکن وقت کا سیلِ رواں کبھی نہیں رکتا، یہ ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔اقبال انقلاب کے مغنی ہیں اور ان کی شاعری رجائیت سے عبارت ہے۔ انھوں نیاردو شاعری کی روایت سے الگ عشق کا ایک نیا تصور پیش کیا جس پر عمل پیرا ہوکر انسان ابدیت حاصل کر سکتا ہے۔ممتاز ادیب، دانشور اور صدر اقبال اکیڈمی، حیدرآبادجناب ضیاء الدین نئیر نے اس جلسے میں بہ حیثیت مہمان خصوصی شرکت کی۔ انھوں نے کہا کہ”مسجدِ قرطبہ“ علامہ اقبال کے سیاحتِ اندلس کی یادگاراور ان کی شاعری کا امتیازی نشان ہے۔ اندلس جو صدیوں تک اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہاہے،اس سرزمین سے شاعر مشرق کو عشق ہے۔”مسجدِ قرطبہ“ میں اقبال کی فکر کے تمام پہلو اور فن کی تمام خصوصیات مجتمع ہوگئی ہیں۔اس میں انھوں نے اجتماعیت ورجائیت کا درس دینے کے ساتھ زماں و مکاں کا تصور بھی پیش کیا ہے۔اس نظم کی علامتی فضا، ایجاز،رعنائی، جاہ و جلال اور حسن و جمال سب کچھ بے مثال ہے۔

اقبال کی فکر میں زندگی پیہم رواں، ہردم جواں کی صورت میں نمودار ہوئی ہے۔اقبال کی فکر سے ترغیب حاصل کرکے ہم آج بھی اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔نوجوان شاعر، ادیب اور معتمد، غالب اکیڈمی، حیدرآباد جناب محبوب خاں اصغر نے بہترین انداز اور لب و لہجے میں ”مسجدِقرطبہ“پیش کی۔انھوں نے اقبال کی شاعری کے فکری پہلوؤں پر مختصر روشنی ڈالی۔پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات اور صدر شعبہئ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کہا کہ اقبال فہمی اور اقبال شناسی میں حیدرآباد خصوصاً جامعہ عثمانیہ کے اساتذہ نے قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں۔خلیفہ عبدالحکیم کی ”فکر اقبال“، یوسف حسین خاں کی ”روح ِاقبال“ اور عزیز احمد کی”اقبال نئی تشکیل“ حیدرآباد میں لکھی گئی وہ کتابیں ہیں جن کے مطالعے کے بغیر اقبال کی فکر کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔

محترمہ عذرا نقوی(دہلی)، ڈاکٹرجاوید رحمانی(آسام یونیورسٹی،سلچر)،جناب ملکیت سنگھ مچھانا(بٹھنڈہ، پنجاب)،جناب انعام الرحمٰن غیور(حیدرآباد)اور ڈاکٹر عظمیٰ تسنیم(حیدرآباد) نے گفتگو میں حصہ لیا۔ابتدا میں ڈاکٹرگل رعنانے علامہ اقبال کی حیات و خدمات سے مختصر طور پر واقف کرایا اور بتایا کہ وہ 9نومبر 1877کو سیال کوٹ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے سیالکوٹ، لاہور،لندن اور ہائیڈل برگ، جرمنی میں تعلیم حاصل کی۔ بانگ درا، بال جبریل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز ان کے شعری کارنامے ہیں۔ان کا انتقال21 اپریل1938کو لاہور میں ہوا۔ڈاکٹر گل رعنانے جناب ضیاء الدین نئیرکا تعارف بھی پیش کیا اور آخر میں اظہارِ تشکر کیا۔ انتظامیہ کمیٹی کی رکن ڈاکٹرحمیرہ سعیدنے جلسے کی بہترین نظامت کی اور جناب محبوب خاں اصغر کا تعارف پیش کیا۔

اس اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب، اساتذہ اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں پروفیسر حبیب نثار، استاد شعبہئ اردو،حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی،ڈاکٹر محمد قمر سلیم(ممبئی)ڈاکٹر مشرف علی(بنارس)ڈاکٹر ہادی سرمدی (داؤد نگر، بہار)جناب غوث ارسلان، محترمہ فرح تزئین (سعودی عرب)جناب عبدالحق (امریکہ) ڈاکٹرمحمد امتیاز عالم،ڈاکٹر ارم اصغر(میلان، اٹلی)ڈاکٹر تلمیذ فاطمہ نقوی (بھوپال)جناب نوشاد انجم(بنگلورو) محترمہ عظمیٰ تسنیم(پونے)جناب حنیف سید(آگرہ) محترمہ افشاں جبیں فرشوری، محترمہ صائمہ بیگ، جناب انعام الرحمٰن غیور، ڈاکٹر زاہدالحق، ڈاکٹر محمد اشفاق چاند، ڈاکٹر اسلم فاروقی، جناب منور علی مختصر،ڈاکٹر صابر علی، ڈاکٹر عائشہ بیگم،جناب عبید ریحان، محترمہ ثوبیہ نوشین،ڈاکٹرحنا کوثر،محترمہ عالیہ فاطمہ،جناب فریدالحق، جناب اقبال احمد، (حیدرآباد)خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ 



Comments


Scroll to Top